• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے لاہور کے این اے 122 کے انتخاب کا منظر دیکھا ۔ ایسا جوش و خروش تو جنرل الیکشن میں بھی نہیں ہوتا عام تاثر یہ تھا کہ نواز شریف کی پارٹی الیکشن میں کامیاب ہوجائے گی۔ میں اس علاقے میں تین سال رہا ہوں اور یہاں کے لوگوں کے MINDSET سے واقف ہوں۔ میں جب ریڈیو پاکستان لاہور میں سینئر پروڈیوسر تھا تو گڑھی شاہو کے متصل علاقے تیزاب احاطے میں رہائش پذیر تھا۔ تین سال کا عرصہ کسی علاقے میں رہ کر وہاں کے لوگوں کو جاننے کیلئے بہت ہوتا ہے یہاں اکثریت مسلم لیگ کے ووٹروں کی ہے۔ اور یہ آج سے نہیں ہے۔ 1947ء سے یہ پاکستان کے دیوانے ہیں۔ وہاں کے ووٹرز نے مسلم لیگ کو ووٹ دئیے کسی شخصیت کو نہیں ۔ جب کوئی واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے تو اس کے کچھ اور باب ہوتے ہیں کچھ حقائق ہوتے ہیں این اے 122 کا انتخاب بہت اہم ہوگیا تھا اس لئے کہ شروع سے یہ کہا جاتا رہا کہ اس حلقہ انتخاب میں بڑی دھاندلی ہوتی ہے۔ عمران خان نے بڑا جوش دکھایا پوری سیاسی طاقت لگا دی کہ ان کی پارٹی یہ ضمنی انتخاب جیت جائے۔ اس کوشش اور جدوجہد میں وہ تنہا نہیں تھی ان کے ساتھ جماعت اسلامی اور طاہر القادری کی جماعت کی حمایت بھی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شکست صرف عمران خان کی پارٹی کو نہیں ہوئی بلکہ ان کی حمایت کرنے والی پارٹیوں کو بھی ہوئی ہے۔ اس کے اثرات مستقبل میں ہونے والے انتخابات پر بھی پڑیں گے۔ اگر پاکستان میں انتخابات کی تاریخ پر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ان دونوں نیم سیاسی اور نیم مذہبی جماعتوں کا پنجاب میں ایسا ووٹ بینک نہیں ہے کہ وہ تحریک انصاف کے اس ضمنی انتخاب میں جو این اے 122 میں لڑا گیا فیصلہ کن کردار ادا کرسکتیں یا اسے جیت سے ہمکنار کرسکتیں بلکہ ان کی حمایت سے تحریک انصاف کو شدید دھچکا لگا۔
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کو این اے 122 میں شکست کا سامنا اس لئے کرنا پڑا کہ وہ جلدی جلدی اپنے موقف کو تبدیل کرتی رہی اس کاووٹرز کی نفسیات پر منفی اثر پڑا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ عمران کسی ایک بات پر ڈٹ کر نہیں رہتے وہ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ کہتے ہیں جب انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو کہا کہ وہ نواز شریف کا استعفیٰ لئے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ دھرنا ختم ہوا یا کرا دیا گیا نواز شریف وزیر اعظم ہیں۔ اتنے طویل دھرنے کے بعد عمران خان کو کیا ملا۔ وہ خالی ہاتھ ہی رہے سیاسی لیڈر وہ ہے جو بات کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے اور جو کہے اس پر قائم رہے ۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں غلطی کررہے تھے انہوں نے کئی غلطیاں کیں کئی موقف بدلے جس کا نتیجہ ان کے خلاف نکلا۔ جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ ایک بڑا سیاسی بلنڈر تھا یہ مسئلہ انہیں پارلیمنٹ میں اٹھانا چاہئے تھا سیاسی مسائل کو عدالتوں میں پہنچانا بہت بڑی سیاسی غلطی ہے۔ تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن کو تحلیل کرنے اور الیکشن کمیشن کے ممبران سےمستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا اور کہا کہ وہ اس کمیشن کے تحت انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے پھر انہوں نے اسی الیکشن کمیشن کے تحت ضمنی الیکشن میں حصہ لیا۔ لاہور کے ووٹرز اور کراچی کے ووٹرز بڑی سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں انہیں گمراہ نہیں کیا جاسکتا انہیں معلوم ہے کہ اس سارے تماشے کے پیچھے کون ہے اور یہ تماشہ کب ختم ہوگا۔لاہور میں ہر سمجھدار آدمی یہ کہہ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی لیڈر شپ میں مستقل مزاجی نہیں ہے اگر وہ مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے دھرنا ختم نہ کرتے تو وہ بہتر پوزیشن میں ہوتے لیکن ان کے مشیروں نے دھرنا ختم کرا دیا۔ کہنا یہ ہے وہ سیاسی اعتبار سے پسپا ہوتے رہے اور آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔سیاست بازیچہ اطفال نہیں اس میدان میں بڑا وقت لگانا پڑتا ہے قوم کے مزاج کو سمجھنا پڑتا ہے نعرے بازی الزام تراشی سیاست نہیں اگر ہرطرف الزام تراشی ہورہی ہو تو کبھی مثبت نتائج سامنے نہیں آسکتے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ (ن) لیگ کا امیدوار بہت کم مارجن سے جیتا ہے ووٹر تو ووٹ ڈالنے کیلئے نکلا ہی نہیں۔ شاید بڑی مشکل سے تیس اور چالیس فیصد کے قریب ووٹ پڑے۔ یہ سمجھئے کہ اگر جماعت اسلامی اور طاہر القادری کی پارٹی کا ووٹر نواز شریف کی دشمنی میں نہ نکلتا اور جوش و خروش نہ دکھاتا تو تحریک انصاف کو بہت بڑے مارجن سے شکست ہوجاتی۔تحریک انصاف الیکشن ہار چکی ہے اسے اور اس کی قیادت کو کھوئے ہوئے موقع کو حاصل کرنے کیلئے اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنا چاہئے ناکہ ناکامی کو ہی پکڑ کر بیٹھ جانا چاہئے۔ دونوں طرف سے الزام تراشی اور نفرت کی سیاست کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے۔پاکستان بہت بڑے بحران سے دوچار ہے اس بات کو سمجھنا چاہئے۔ قوم و ملک کے سودو زیاں کا کچھ تو خیال کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں ہر سطح پر کرپشن ہے جو قانون کی عملداری سے ختم ہوسکتا ہے لیکن یہ قانون کی عملداری کس طرح ہوگی جب ادارے حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔ آخر یہ پارلیمنٹ کس مرض کی دوا ہے سیاسی پارٹیوں کو جو کچھ کرنا ہے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے کریں یہاں یہ حالت ہے کہ جو بل پاس کرنا ہوتا ہے اسے بلڈوز کردیتے ہیں نہ اس پر بحث ہوتی ہے نہ اچھا اور برا دیکھا جاتا ہے۔
تازہ ترین