• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک لڑکی کی شادی کی تاریخ قریب تھی، اس کی سہیلی نے پوچھا :
’’سناؤ، شادی کی سب تیاری ہو گئی؟‘‘ لڑکی نے جواب دیا ’’ہاں، تیاری تو تقریباً مکمل ہے، بس پرانی سِم توڑنی باقی رہ گئی ہے!‘‘
خواتین و حضرات! پہلے تو میں اس بات کا اعتراف کر لوں کہ اس لطیفے کا یوم اقبال سے دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں، اس کے باوجود میں نے اقبال پر اپنے مضمون کی ابتدا اس لطیفے سے اس لئے کی ہے کیونکہ آج کل تقریبات کا کوئی بھی موقع ہو، چاہے وہ یوم اقبال کی ہوں یا مادھو لعل کا عرس، لکس سٹائل ایوارڈز ہوں یا کل پاکستان کبڈی مقابلہ، مقررین کی تان پانامہ لیکس پر ہی ٹوٹتی ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ، آج بھی ایسا ہی ہوگا اور ایک دو مقررین اپنے خطاب میں یہ ثابت کریں گے کہ اگر علّامہ اقبال آج زندہ ہوتے تو اُن کے تجویز کردہ ٹی او آرز ہی کی حمایت کرتے۔ سو، امید ہے کہ میرے غیر متعلق لطیفے کو بھی آپ اسی سپیرٹ میں درگزر کریں گے۔
خواتین و حضرات! جس ایوان میں یہ تقریب منعقد ہو رہی ہے یہاں علّامہ کی شاعر ی، فلسفہ اور ذاتی زندگی کے حوالے سے لکھی گئی ہزاروں کتابیں موجود ہیں، ایسے قابل لوگ بھی یہاں تشریف رکھتے ہیں جو گھنٹوں اقبال کی ہمہ جہت شخصیت پر گفتگو کر سکتے ہیں، سو اس ماحول میں مجھ ایسے شخص میں اتنی سکت نہیں کہ اقبال کی شان میں مزید اضافہ کر سکوں تاہم موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اِن اکابرین کی توجہ اقبال کی ذاتی زندگی کے چند پہلوؤں کی طرف ضرور دلانا چاہوں گا جن کا ذکر ہم کم ہی سنتے ہیں۔ جس شخص کو ہم علّامہ محمد اقبال کے نام سے جانتے ہیں انہوں نے کئی غیر مسلم اساتذہ سے انگریزی میں تعلیم حاصل کی، انگریزی میں مقالہ تحریر کیا اور خطبات بھی انگریزی میں لکھے، گویا اقبال کی تعلیم کا پورا پیٹرن وہ تھا جس کے خلاف آج اقبال سے عاشقی کا دعوی کرنے والے کمر بستہ رہتے ہیں، اِن عاشقانِ اقبال کا بس چلے تو اقبال کے استاد کا نام پروفیسر آرنلڈ سے تبدیل کرکے مولوی فضل اللہ رکھ دیں اور میونخ یونیورسٹی کی بجائے اقبال کا داخلہ افغانستان کے کسی مدرسے میں کروا دیں۔ ہم جس شخص کو اقبال کے نام سے جانتے ہیں اُس نے انگریز کا نظام قانون پڑھا، لنکنز ان سے بیرسٹر بنے اور پھر انگلش لا میں عملی وکالت بھی کی جبکہ آج اقبال سے محبت کا دم بھرنے والے ہمارے کچھ دوست اِس سارے نظام کو ہی باطل قرار دیتے ہیں، اب معلوم نہیں کہ اقبال سے اُن کی محبت جھوٹی ہے یا نظام سے اُن کی بغاوت کا نعرہ کھوکھلا ہے۔ جس اقبال کو ہم جانتے ہیں اُس کی دوستی ایما ویگے ناست نامی جرمن خاتون سے بھی رہی، یہ خاتون ہائیڈل برگ میں غیر ملکی طلبا کو جرمن زبان و ادب کی تعلیم دیتی تھیں، اقبال کو اِن کی دوستی سے بڑا ذہنی سکون ملا لیکن 2016کے پاکستان میں اگرکوئی شخص غیر ملکی خاتون سے کھلے بندوں دوستی کا اعتراف کر لے تو اقبال سے عشق کے یہی دعویدار کم سے کم اُسے سیکولر کی اعزازی ڈگری سے ضرور نواز دیں گے۔ اِن عاشقانِ اقبال سے میری استدعا ہے کہ یہ اعزازی ڈگری اگر وہ اقبال کو عنایت کر دیں تو اِس ملک پر احسان عظیم ہوگا! آگے بڑھتے ہیں، علّامہ اقبال کی حیدر آباد کے مہاراجہ کشن پرشاد سے بہت دوستی تھی، علّامہ نے مہاراجہ کو ایک خط میں لکھا کہ ’’میں رامائن کا اردو ترجمہ کرنا چاہتا ہوں، مسیح جہانگیری (نامی شاعر) نے رامائن کے قصے کو فارسی میں نظم کیا ہے۔ اگر سرکار کے کتب خانے میں وہ موجود ہوں تو کیا چند روز کے لئے عاریتہً مل سکتا ہے؟‘‘ مہاراجہ نے اس خط کا جواب یہ کہہ کر دیا کہ ’’یہ خوشی کی بات ہے کہ آپ نے رامائن کو اردو نظم میں لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ خدا مبارک کرے اور آپ کے اس عزم کو تکمیل تک پہنچائے۔ مسیح جہانگیری نے رامائن کا جو فارسی حصہ لکھا ہے، وہ شاد کے کتب خانے میں موجود نہیں۔‘‘ ذرا تصور فرمائیں کہ آج کوئی مسلمان شاعر یہ خواہش ظاہر کرے اور خدانخواستہ اسے عملی جامہ بھی پہنا بیٹھے تو ہمارے خود ساختہ عاشقانِ اقبال اسے کیا لقب دیں گے اس کا اندازہ ایک دودھ پیتا بچہ بھی لگا سکتا ہے۔ اقبال تو رامائن کا ترجمہ نہ کر سکے لیکن اس کے باوجود ’’سیتا کی فریاد‘‘ نامی نظم اُس وقت بھی پاکستانی سکولوں کے نصاب میں شامل تھی جب قائد اعظم اِس ملک کے گورنر جنرل تھے، اب چونکہ ملک اقبال اور جناح کے ٹھیکیداروں کے ہاتھ میں ہے اس لئے سیتا کو کسی سے فریاد کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔
علّامہ اقبال کی زندگی سے ایسی لاتعداد مثالیں دی جا سکتی ہیں جو اُن کی روشن خیالی کا ناقابل تردید ثبوت ہیں، آپ کے سماجی تعلقات بلا تفریق مذہب، رنگ، نسل ہر انسان کے ساتھ محبت کی بنیاد پر قائم تھے، انگریزوں نے آپ کو سر کا خطاب دیا جسے آپ نے قبول فرمایا اور اقبال کے عاشق کے طور پر ہمیں اس پر ناز ہے لیکن یہ کیا منافقت ہے کہ آج وہی مغرب، جس کے ہم اب غلام بھی نہیں رہے، جب ہماری ایک بچی کو امن کا نوبیل انعام دیتا ہے تو اسی اقبال سے محبت کا دعویٰ کرنے والے اس بچی کے خلاف بندوقیں تان کرکھڑے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے!
خواتین و حضرات! عاشقانِ اقبال سے گلے شکوے تو ہو گئے اب کچھ اظہار محبت اپنے روشن خیال دوستوں سے بھی ہو جائے۔ علّامہ اقبال کی پروگریسو اپروچ اُن کی زندگی کا صرف ایک پہلو ہے، اُن کی زندگی کا دوسرا پہلو مسلم نیشنلزم سے جڑا ہے اور اصل میں یہ وہ کانٹا ہے جو آج تک ہمارے لبرل اور سیکولر دوستوں کے حلق میں پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اقبال کو ’’کوٹ‘‘ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ انہیں اُس شاعر کے آگے سر جھکانے میں شرم محسوس ہوتی ہے جو ڈرنک نہیں کرتا، اسلام کا علم بلند دیکھنا چاہتا ہے اور نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر جیسی مثالوں سے لہو گرماتا ہے۔ ہمارے اِن دوستوں کی زبان سے آپ غالب، فیض، راشد، میرا جی اور مجید امجد کی شان میں قصیدے تو سنیں گے مگر اقبال کا ذکر آتے ہی یہ اُس دلہن کی طرح شرما جاتے ہیں جس نے شادی سے پہلے پرانی سِم توڑنی ہوتی ہے۔ انہیں وہ اقبال ہضم نہیں ہوتا جس کا لیڈر جناح ہے، انہیں وہ اقبال قبول نہیں جو جواہر لعل نہرو کے لتّے لے اور انہیں مسجد قرطبہ میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرکے زار و قطار رونے والا اقبال بھی acceptableنہیں کیونکہ یہ رونے والی تھیوری امریکہ اور مغرب سے امپورٹ ہو کر نہیں آئی تھی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ اپنے ہاں کے اِن آزاد خیال دانشوروں کے ماننےیا نہ ماننے سے دیو قامت اقبال کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بین الاقوامی سطح پر اقبال کو ملنے والی پذیرائی کا یہ ثبوت ہی کافی ہے کہ کیمبرج سے لے کر ہاورڈ تک اقبالیات پر بیسیوں ریسرچ پیپرز لکھے جا چکے ہیں جبکہ عالمی سطح پر شائع ہونے والی سینکڑوں کتابیں اس کے علاوہ ہیں۔
آج اگر اقبال زندہ ہوتے تو ہمارے نام نہاد عاشقان اقبال اور الٹرا لبرل حضرات دونوں علّامہ صاحب کا وہ حشر کرتے جو سردار جی نے ایک بارات کا کیا تھا۔ اُن سردار جی کا کیس عدالت میں لگا تھا، اُن پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی گاڑی سڑک پر چلنے والے باراتیوں پر چڑھا کر دس بندے مار دیئے ہیں۔ جج نے وجہ پوچھی تو سردار جی نے جواب دیا کہ اُن کی گاڑی کی بریک فیل ہو گئی تھی، اِس پر جج نے کہا کہ اگر بریک فیل ہو گئی تھی تو گاڑی کسی ایسی سڑک پر ڈال لیتے جہاں بندے کم ہوتے، سردار جی جواب دیا کہ جج صاحب، میں نے گاڑی دوسری سڑک کی طرف ہی موڑی تھی جہاں صرف دو بندے چل رہے تھے مگر وہ بھی بھاگ کر باراتیوں والی سڑک کی طرف چلے گئے لہٰذا مجبوراً مجھے گاڑی بارات کی طرف موڑنی پڑی!
خواتین و حضرات ! آج اقبال ڈے کے موقع پر عاشقانِ اقبال اور الٹرا لبرل حضرات دونوں کو اقبال کا شکر گزار ہونا چاہئے جن کی وجہ سے اس ملک میں ہمارا رزق لگا ہوا ہے، ہوتا متحدہ ہندوستان تو کسی نے ہم جیسوں کو پلٹ کر پوچھنا بھی نہیں تھا، یہ ملک علّامہ اقبال کی رائلٹی ہے، اس کی قدر کریں، آپ کا بہت بہت شکریہ۔
نوٹ:یہ مضمون یوم اقبال کے موقع پر مرکزیہ مجلس اقبال کے تحت منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا۔




.
تازہ ترین