• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمیں اپنے اپنے ضمیر کا قیدی بن کر گڈانی سانحہ پر بات کرنے کا بار اٹھانا چاہئے۔ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں لنگر انداز بحری جہاز میں دھماکے کے بعد آگ بھڑک اٹھی، 16، 18یا 20مزدور جاں بحق ہو گئے، آگ لگنے سے 59سے زائد زخمی ہوئے، یہ 2نومبر 2016کا وقوعہ ہے!
قومی پریس نے اس دلدوز واقعہ پر تفصیلاً اظہار خیال کیا لیکن ساتھ ہی اس کے ’’مقام و مرتبہ‘‘ کا تعین کرنا نہیں بھولے، اکثر اخبارات نے اسے اپنے ادارتی صفحات پر ’’تیسرے نمبر‘‘ پر رکھا، پہلے اور دوسرے نمبر پر عمران خان کے دھرنے، بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک پر پابندیوں کی فکر مندی اور پاناما لیکس جیسی ان ’’انسانی عظمتوں‘‘کے قابل سمجھا گیا جن کے بغیر شاید ’’کائنات‘‘ نامکمل رہے گی، گڈانی کے عرشے پر آگ کے شعلوں کی نذر ہونے والے انسانوں کا مرتبہ و مقام ہونا ہے، یہ ان لوگوں نے متعین کرنا ہے جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں تشریف رکھتے ہیں، سو کچھ اس پر کہا نہیں جا سکتا، ان کی اکثریت بے حد ’’عاجز‘‘ ہے، کوئی ان کی جانب اشارہ کرے، تو شاید یہ اس کا حساب بھی چکا دیتے۔
میڈیا کی ہر نوعیت کے دائروں میں یہ ’’فرعون‘‘ براجمان ہیں گو ان کے ’’سائز‘‘ اور ’’اختیارات‘‘ میں ایک تفریق روا رکھی جاتی ہے، کوئی سب سے بڑا، کوئی اس سے چھوٹا اور کوئی سب سے چھوٹا، بہرحال یہ تینوں انواع انسانی اخلاقیات کے تقاضوں کو پوری برہنگی کے ساتھ اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، گڈانی کے سانحے اور حالیہ ریلوے حادثے میں یہی ہوا، الیکٹرانک میڈیا نے انسانی جانوں کو ایک جاری خبر کے علاوہ کوئی اہمیت نہ دی۔
گڈانی سانحہ کے حوالے سے شعلوں کی بھٹی کا ایک شکار، زندگی اور موت کی میزان کا منتظر نوجوان اقبال ایسے حقائق کا انکشاف کرتا ہے جو اس ملک میں روٹین کا درجہ رکھتے ہیں، معاشرے کے سرمایہ دار اور کاروباری طبقات اپنی سفاکیت کا رقص جاری رکھتے اور ریاستی اہلکار اپنے فرائض کی ادائیگی میں تکبر اور لاپرواہی کے ساتھ، نہایت ’’اطمینان‘‘ کازاد راہ لے کر، موقرپُنے کا ثبوت دیتے ہیں، بے شمار حادثات ہو، بے شمار سانحات نے جنم لیا، ایسے متعلقہ اہلکاروں کی اپنے سرکاری فرائض کے معاملے میں یہی ذہنی شیطنت جاری رہی، جس پر کوئی قدغن نہ لگ سکی، حکمرانوں کو اپنی حکومتیں سنبھالنے کی تگ و دو سے فرصت نہ ملی اور ریاستی نظام کے زیر سایہ جینے والے عوام نے ایک مقدس قسم کی غیر جانبداری اور ایک ذلت آمیز قسم کی غلامانہ زندگی قبول کر کے ان ریاستی اہلکاروں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا، اصلاح احوال کی امید ختم سمجھنی چاہئے چاہے جمہوری تسلسل جاری رہے، جسے بہرحال جاری رہنا چاہئے!
یہ وہ مرحلہ ہے جہاں کچھ تفصیل ناگزیر ہے، یہ تفصیل ہمیں مملکت خداداد کے جبلی المیے پر گفتگو کا موقع فراہم کر سکتی ہے، شائع شدہ معلومات کے مطابق ’’گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں 68پلاٹسپر جہازوں کو توڑنے کا کام جاری ہے، تقریباً 38آپریٹر اس عمل کو انجام دے رہے ہیں، 2000ملازم وہاں کام کرتے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے ری سائیکلنگ کے نئے قواعد و ضوابط کے بعد پاکستان میں گڈانی شپ بریکنگ صنعت کو سنگین خطرات لاحق ہو گئے ہیں، پاکستان میں اس صنعت کو جدید آلات اور سہولتیں حاصل نہیں، ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے نئے ریگلولیشنز کے تحت اسلام آباد کو کہا گیا تھا کہ وہ اس صنعت کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے درست اقدامات کرے۔ یہ رپورٹ شپ بریکنگ صنعت کے جائزے اور مشاہدے کے بعد مرتب کی گئی تھی جس میں شپ بریکنگ کی جگہوں، ملازموں کے غیر تسلی بخش حقوق، ناکارہ مادوں کو برتنا، اسٹوریج اور ماحولیاتی اثرات کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں، خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ تمام معاملات گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر جہازوں کی آمد میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، رپورٹ کی شریک مصنف پٹریزیا بائیڈیگر نے پاکستان کو تجویز دی تھی کہ وہ ملک میں جہازوں سے خارج ہونے والے مضر مادے کو برتنے کے لئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) متعارف کرائے، اس رپورٹ میں ماحول دوست شپ بریکنگ اور ری سائیکلنگ کے لئے 20کے قریب سفارشات پیش کی گئی تھیں!‘‘
یہاں چند سوالات خود بخود وجود میں آ جاتے ہیں۔
(1) یہ رپورٹ سال، دو سال، چھ ماہ، تین ماہ، یا ایک دن پہلے اسلام آباد کو پیش کی گئی تھی، کیا اسلام آباد میں موجود متعلقہ محکمہ یا متعلقہ مجاز اتھارٹی اس مدت کا بتانے کی زحمت گوارا کرے گی؟
(2) کیا اس رپورٹ کا یورپی یونین کو عمل کے حوالے سے کوئی جواب دیا گیا اور پھر اس پر کس حد تک عمل کیا گیا؟ یورپی یونین کی ماحول دوست ’’شپ بریکنگ‘‘ کی اصطلاح سے یہاں کے کارکنوں کو حقوق و مراعات فراہم کئے جانے کے جس معیار اور مقدار کا پیغام ملتا ہے کیا اس کا کوئی تصور ہمارے اس ریاستی محکمے یا مجاز اتھارٹی کے ہاں موجود تھا یا ہے، کیا وہ اس تصور کو مطلوبہ مفہوم میں بیان کرنے کی زحمت کریں گے؟
وزیراعظم پاکستان نے، آخر کار جو سانحہ ہو کے رہا، اس کے تناظر میں ’’سچ‘‘ کی تلاش کے لئے وفاقی وزیر رانا تنویر کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی ہے، کیا اس کمیٹی کی ’’نتائج رپورٹ، کے لئے کوئی عرصہمتعین کیا گیا ہے یا اسے اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ کیا اس کے دائرہ کار میں قصور واروں کو ایسی سزائیں دینے کی کوئی نقشہ گری کی گئی ہے جس سے موت کے منہ میں جانے والوں اور برباد شدہ خاندانوں کی ذہنی تسکین کا سامان ہو سکے؟ ہمارا مطلب ان قصور واروں کے عبرت ناک انجام سے ہے!
گزشتہ 64سے زائد برسوں سے ہی، جب سے یہ ملک تقسیم کے نتیجے اور آبادیوں کےخون آشام حشر کے بعد معرض وجود میں آیا، پھر یہاں ریاست کے حکمرانوں اور اہلکاروں اور یہاں کے باشندوں، خصوصاً سب سے بڑی قومیت کے افراد نے مذہب یا نفس کی بنیادوں پر انسانی لہو کے لئے ’’ارزانی‘‘ کا لفظ ہی بے معنی کر دیا، وقت کے خاموش گھات سے ایک ذرہ بھی اوجھل نہیں، وہ جو اس قطعہ ارض کو دنیا کی حکمرانی کا ’’کائناتی راز‘‘ قرار دیتے ہیں، وہ بھی قدرت کے قوانین سے باہر نہیں، پاکستان اپنے تاریخی ریکارڈ کے مجموعی پس منظر میں مکافات عمل کے لمحہ امتحاں میں ہے دھمکیاں اور پیش گوئیاں قدرت کو عاجز نہیں کر سکتیں، کسی ملک کے اجتماعی ’’گڈانی‘‘ کا فیصلہ بالآخر ان قدرتی اصولوں کے ترازو میں تل کے رہنا ہے!




.
تازہ ترین