اسلام ایک بڑا وسیع مذہب ہے۔ اس میں بہت سے فرقے ہیں۔ہر فرقہ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادت کرتا ہے۔اور اسلام اس کی کھلی اجازت دیتا ہے بلکہ ساتھ تحفظ کا احساس بھی دلاتا ہے۔پاکستا ن بھر میں بریلوی ، دیو بندی اور شیعہ مکاتیب فکر کے لوگ کثرت سے رہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسماعیلی ، بوہری جماعت ، نور بخشیہ اور ذکری فرقے کے لوگ بھی آباد ہیں۔اسماعیلی فرقے کے لوگ زیادہ تر گلگت میں رہتے ہیں ۔ بوہری فرقے کے لوگ تھوڑی تھوڑی تعداد میں تقریباً بڑے شہر میں آباد ہیں۔بلکہ اب تو اسماعیلی بھی لاہور ، اسلام آباد میں کافی آباد ہیں ۔نور بخشیہ کھپلو اور اسکردو وغیرہ کے علاقے میں رہتے ہیں۔ذکری قبیلے کے لوگ تربت(کیچ) مکران صوبہ بلوچستان میں رہتے ہیں۔اپنی عبادت گاہ میں جا کر صرف ذکر کرتے ہیں ’’لا اِلہَ اِلاللہ‘‘۔دو پارٹیوں میں آمنے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ایک پارٹی لا اِلہ پڑھتی ہے اور دوسری طرف بیٹھے ہوئے لوگ صرف اِلاللہ پڑھتے ہیںاور یہی ان کی سب سے بڑی عبادت ہے اسلئے ان کو ذکری کہتے ہیں۔ میں نے جب ان کی عبادت گاہ میں جا کر مختلف معتبر لوگوں سے ملاقات کی تو انہوں نے بتایا کہ اب ہم میں کچھ تبدیلی آ رہی ہے۔کچھ سال پہلے ہمارا ایک آ دمی مکہ بھی حج کرکے آیا ہے ۔ گزشتہ دو تین سالوں سے ہم میںسے کچھ لوگ روزے بھی رکھ رہے ہیں۔تربت سے واپس آ کر میں ضلع کچھی گیا تو وہاں کے ڈپٹی کمشنر علی اعجاز ٹوانہ کو اس ذکری فرقے کے متعلق بتایا تو انہوں نے مجھے ایک اور دلچسپ معلومات سے نوازاکہ میں کچھی سے پہلے ضلع شیرانی میں اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ وہاں پورے ضلع میں کہیں بھی جمعہ کی نماز نہیںہوتی۔میرے لئے ایک چونکا دینے والی خبر تھی کہ مسلمان ملک کا ضلع جہاں کی تقریباً 100فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔وہاں جمعہ کی نماز نہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟ لیکن پھر سوچا کہ میں خود شیرانی جا کر سارے حالات سے آگاہی حاصل کر کے پھر اس پر کچھ لکھوں گا۔کچھی سے واپسی پر کوئٹہ آکر ژوب ، شیرانی اور قلعہ سیف اللہ جانے کا پروگرام بنا کرژوب پہنچا تو میرا قیام سابق انگریز حکمراں سنڈیمن کی رہائش گاہ میں تھا۔وہ تاریخی قلعہ پہلی دفعہ دیکھنے کا موقع ملا۔اس کے ساتھ قلعے کے دوسرے حصے میں ڈپٹی کمشنر محمد عظیم کاکڑ کا دفتر ہے۔ڈی سی صاحب کو میں نے آنے کا مقصد بتایا تو معلوم ہوا کہ ان کے دفتر کے ساتھ ہی ڈپٹی کمشنر ضلع شیرانی حیات کاکڑ صاحب کا دفتر بھی ہے۔اتنے میں ڈپٹی کمشنر ضلع شیرانی اور ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ قیصر خان ناصر بھی آ گئے۔تینوں ڈپٹی کمشنر صاحبان اور راقم ایک الگ گھر میں چلے گئے تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ واقعی ضلع شیرانی میں جمعہ کی نماز ادا نہیں ہو سکتی۔مولانا محمد خان شیرانی چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے فتویٰ دے رکھا ہے کہ جہاں بازار نہ ہو، فلاں فلاں پیشے کے کاریگر نہ ہوں، مسجد میں نمازیوں کی اتنی تعداد نہ ہوتوجمعے کی نماز ادا نہیں ہو سکتی۔اس لئے پھر شیرانی ضلع کے لوگ جمعہ کی نماز ادا کرنے دوسرے اضلاع میں جاتے ہیں۔ضلع شیرانی کے ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ اس وقت ضلع شیرانی کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔18ہزاربچے 5سال سے کم ہیں جنہیں ہم پولیو کے قطرے پلانے لے جاتے ہیںتو ہمیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ہم جبراً یا قانوناً وہاں جمعہ کی نماز کا اہتمام نہیں کرا سکتے۔کیونکہ یہ مذہبی مسئلہ ہے اور دور تک پھیل جائے گا۔ڈپٹی کمشنر صاحبان سے فارغ ہو کر میں ایف سی کے کمانڈنٹ کرنل ریحان ستی کے پاس گیا۔ان کے پاس ایف سی کمانڈنٹ قلعہ سیف اللہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ژوب اور قلعہ سیف اللہ شیرانی کے نزدیک ترین اضلاع ہیں۔ اسلئے ان ذمہ دار لوگوں سے ملاقات بہت ضروری تھی۔شیرانی ضلع کے کمانڈنٹ ایف سی کرنل ریحان ستی نے بتایا کہ ایف سی سمیت شیرانی کی عام آبادی میں بھی ہر مسلک کے لوگ آباد ہیں۔ ان میں شیعہ، بریلوی، دیوبندی سب شامل ہیں۔ وہ سب لوگ نمازِ جمعہ ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم شیرانی صاحب کی وجہ سے مجبور ہیں۔
ڈپٹی کمشنر صاحب نے بتایا تھا کہ شیرانی صاحب کہتے ہیں ضلع شیرانی میں پورا بازار ہونا تو درکنار دو دکانیں بھی ایک جگہ پر موجود نہیں ہیں۔بحرحال یہ ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ تھا جس کا ہمارے جیسے کم علم لوگوں کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ہم نے تو سن اور پڑھ رکھا ہے کہ ہر شخص کو مذہبی آزادی ہے۔وہ اپنے عقیدے کے مطابق اپنی عبادت کر سکتا ہے۔لیکن مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہے ۔ اس لئے میرا میڈیا کے ذریعے پاکستان کے علمائے کرام سے انتہائی مؤدبانہ سوال ہے کہ وہ ضلع شیرانی کی ایک لاکھ آبادی کے اس دینی مسئلے کا کوئی حل پیش کریں۔جس سے اور نہیںتو فوجی چھاؤنیوں کے اندر جہاں نمازیوں کی تعداد پانچ سو سے تجاوز کر سکتی ہے وہ نمازِجمعہ ادا کر سکتے ہیںیا نہیں۔ضلع شیرانی کے ایک دکاندار سے پوچھا تو اس نے جذباتی انداز میں کہا کہ ہمارے ضلع میں مذہب کا فیصلہ ایک مولوی صاحب کرتے ہیں ۔خدا کیلئے اسلام کو اس مولوی کے چنگل سے آزاد کر دیا جائے ۔ اس نے کہا کہ شاید مولوی صاحب کی باتیں ٹھیک بھی ہوں لیکن مجبوری بھی توکوئی چیز ہوتی ہے۔ ضلع شیرانی میں کچھ مجبوریاں بھی ہیں ۔ ان پر نظر ثانی کی جائے اور ایک لاکھ کی آبادی کو نمازِ جمعہ سے محروم نہ رکھا جائے۔ویسے بھی ضلع شیرانی کی ساری انتظامیہ ژوب بیٹھتی ہے تو پھر ایسے ویران علاقے کو ضلع کا درجہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔مسئلہ علمائے کرام کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس کا کوئی مثبت حل تلاش کریں۔
.