• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خطابت و سیادت کے چند درخشاں ستارے تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ

(پہلی قسط)
یہ1978سے 1981کا دور ہے اس وقت ہمارا شہر لائل پور کہلاتاتھا جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں فیصل آباد کے نام سے نئی شناخت پا گیا اس دور میں لائل پورکی دینی و سیاسی باگ ڈور علماء ہی کے ہاتھ میں تھی ان میں مولانا تاج محمود، مولانا محمد صدیق بلوچ لائل پوری، صاحبزادہ سید افتخار الحسن اور مولاناضیاء القاسمی نمایاں تھے۔ یہ چاروں اصحاب علم و دانش ایک دوسرے کے بڑے گہرے دوست تھے ، مکتبہ فکر الگ الگ ہونے کے باوجود باہمی محبت و احترام قابل ذکرتھا سب کی رائے ایک ہی ہوتی تھی۔ شہرکی انتظامیہ ان سب سے دبتی تھی۔ لائل پور میں سیاسی یا مذہبی کوئی تحریک ایسی نہ تھی جو ان کے بغیر کامیاب ہوسکتی ہو مولاناتاج محمود اور مولاناضیاء القاسمی دیوبندی، مولانامحمد صدیق اہل حدیث اور صاحبزادہ سید افتخار الحسن بریلوی مکتب فکر کے قائدین میں سے تھے (رحمھم اللہ علیھم اجمعین) مسلکی نقطہ نظر میں اختلاف کے باوجود ان میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھی ختم نبوت کی پاسبانی۔ لائل پور کی تاریخ کایہ بڑا انقلابی دور تھا ان میں سے تین دوست پنجابی کے اعلیٰ پائے کے مقرر تھے۔ مغرب (غلام محمد آباد) میں مولانا ضیاء القاسمی، مشرق (منصورآباد) میں صاحبزادہ سید افتحار الحسن۔ وسط شہر میں مولانا محمدصدیق اور ریلوے سٹیشن کے اردگرد پر مولاناتاج محمود کا قبضہ تھا۔
مولانا محمد صدیق لائل پوری
مولانا محمد صدیق تاندلیانوالہ کے ایک ملحقہ گاؤں کرپالہ کے بڑے زمیندار اور گاؤں کے نمبردار ہونے اور بلوچ فیملی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مالی لحاظ سے بڑے مستحکم تھے۔ تاندلیانوالہ میں ان کی روئی کی ملز، فیصل آباد شہر گول بازار میں ان کی آڑھت اورگلبرگ میں ان کی اپنی کشادہ کوٹھی تھی۔ جرأت و شجاعت میں اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی(سینٹر پروفیسر ساجد میر امیرمرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان ان کے نبیرہ ہیں) کی خصوصی دعا سے اہل سنت میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ بہت بڑے مبلغ بنے۔مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے نائب امیر رہے ۔ علمائے اہل حدیث کی ساری قیادت ہمیشہ مسلم لیگی رہی ، شیخ الاسلام مولاناثناء اللہ امرتسری ، حضرت مولانامحمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولاناعلی محمد صمصام تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے ہراول دستہ رہے ۔اس لیے مولانا محمد صدیق بلوچ کی سیاست مسلم لیگی تھی ۔ کئی بار وہ الیکشن میں کھڑے ہوئے مگر صرف ایک بار جیتے۔ اور وہ بھی 1977کے الیکشن میں قومی اتحاد کے ٹکٹ پر لیکن وہ اسمبلیاں ہی سج نہ سکیں ۔ آپ بہت ذہین و فطین، دل و دماغ کے غنی تھے ۔بڑے مہمان نواز اور اخلاق وکردار کے بادشاہ اور بھرپور عالم تھے۔ حکمت و دانائی سے انہوں نے سیاست میں قدم جمائے رکھا۔ ملک میں کوئی بھی تحریک چلے، فیصل آباد میں جب تک مولانا محمد صدیق اس کی باگ ڈور نہیں سنبھالتے تھے، وہ کامیاب نہ ہوسکتی تھی۔ دوسرے قائدین کی نسبت مولانا صدیق آزاد تھے اورانہیں اپنی آزادی کے فن کو استعمال کرنا آتاتھا۔ لائل پور کی ساری انتظامیہ مولانا سے دبتی تھی انہوں نے تاحیات اپنی مسجد کو اوقاف کی تحویل میں نہیں آنے دیا۔لائل پور شہر میں جامعہ سلفیہ کے شیخ الحدیث اور شہر کی مرکزی جامع مسجد امین پور بازارکے تاحیات خطیب رہے۔ میں نے ان سے موطاامام مالک اور صحیح بخاری پڑھی ہے۔ آخردم تک وہ محفل سجائے رکھے رہے ۔میں ان کا شاگرد خاص تھا مجھے اعلیٰ واولی کہہ کر بلاتے تھے، چونکہ میرا تعلق بھی اسی شہرسےتھا اس لیے میں آپ کے نزدیک غیر معمولی طالب علم تھا۔ جامعہ سلفیہ میں کسی طالب علم کو چھٹی درکار ہوتی یاکوئی اور کام تو شیخ الحدیث صاحب میری تجویز یا پیش کردہ درخواست پر بن دیکھے دستخط کردیتے تھے۔ بعد میں کوئی مسئلہ بنتا تب بھی میں ہی نشانہ بنتا۔ لیکن مولاناکودلجوئی کرنے کابہت فن تھا۔ دوران تدریس عراق و دیگر عرب طلبہ کوفصیح عربی میں سبق پڑھایاکرتے تھے۔ اس دور میں کئی بار ان کی مسجد میں خطبہ جمعہ دینے کا اتفاق ہوا وہ ہنس کرفرمایاکرتے تھے تم واحد شاگرد ہو جس نے میری زندگی میں مجھ سے مسجد میں جمعہ پڑھانالے لیاہے ورنہ ساری زندگی کسی کو جرأت نہیں ہوئی میںعرض کرتا میں نے کونسا قبضہ کرلیا ہے یاحضرت ؟۔انگلینڈ آنے سے پہلے میں ان سے ملنے ان کی جناح کالونی والی کوٹھی گیا تو بڑی دعائیں دیں اور ایسے رخصت کیا جیسے آخری ملاقات تھی اور بالفعل وہ آخری ملاقات ہی ثابت ہوئی کچھ عرصہ بعد ان کی وفات ہوگئی مائیں جنتی ہیں ایسے لعل کبھی کبھی۔
حضرت مولاناتاج محمود
فیصل آباد میں احراری قافلے کے سرخیل حضرت مولانا تاج محمود تھے۔ مولانا ریلوے کالونی مسجد کے خطیب تھے ان کی خطابت بڑی موثر اور پر حکمت ہوتی تھی ، ان کا نام وقار ووجاہت شجاعت مولاناتاج محمود کا نشان تھا ۔انہیں دیکھتے ہی انسان شاعر بن جاتاتھا۔ برصغیر کے نامور رہنماآغا شورش کاشمیری نے انہیں ایسی حالت میں دیکھا تو ان کا تعارف شاعرانہ انداز میں کرایا کہ اردو زبان ان کی تعبیرو تشریح کیلئے ہاتھ باندھے کھڑی ہوگئی۔ چوہدری افضل حق نے ’’تاریخ احرار‘‘ان گمنام احرار دوستوں کے نام انتساب کی ہے ، جن کی گمنامی سے احرار رہنماؤں نے ناموری حاصل کی ہے۔ مولانا تاج محمود اس گئے دور میں احرار کے ایسے ہی مخلص ساتھی ہیں بلکہ احرار مرحوم کے ویرانہ آباد میں اگر شاہ جی دل ہیں، محمد علی جالندھری دماغ تو قاضی احسان احمد شجاع آبادی اور مولانا تاج محمود دوبازو ہیں ۔تحریک ختم نبوت میں جن احرار قیدیوں کو شاہی قلعہ کی زیارت نصیب ہوئی ان میں سے ایک آپ بھی ہیں۔ خلوتیان راز کا کہناہے کہ تاج محمود اپنی پامردی اور جوانمردی میں منفرد رہا۔ احرار قلعہ میں کوئی بھی ان کاہم پایہ اور ہم مرتبہ نہیں تھا۔احراری خصوصیت کے برعکس تاج محمود کوئی بڑے مقررنہیں لیکن خود بھی ٹھوس کام بھی ٹھوس۔ دھن کے پکے، بات پر ڈٹ جانے والے ایثار پیشہ، فارسی ، اردو ، عربی کے شناور ، دوستوں کیلئے موج رواں، دشمنوں کیلئے برق تپاں، مرزائیت کے جانی دشمن، اسلام پرجی جان سے عاشق، معاملہ فہم، سید عطاء اللہ بخاری کے مجنون بلکہ صحرانوردی میں قیس عامری کو میلوں پیچھے چھوڑنے والے، انتہائی وضع دار، انتہائی خوددار، خوف ان کی چمڑی میں نہیں، شعرو شاعری میں ان کا مذاق ستھرا، ادب کی نوک پلک سے واقف دیانتدار۔ قامت میانہ، قد دراز، جسم دہرا ، رنگ کھرا ہوا ، آنکھیں مسکراتی ہوئی ، پیشانی کشادہ، ماتھے پر ہلکی پھلکی لکیریں، خوش گفتاراور خوش کردار ، طبیعت پرگداز ، مزاج میں سوز وساز، شوق میں پرواز، سیرت میں اعجاز، عمر میں جوانی کا ولولہ، رنگ گندمی ، ناک ستوں، رفتار میں تحمل، گفتگو میں تجمل، دل آئینہ ، سادہ فطرت، سادہ سرشت، عیب ہیں نہ عیب چین اقبال کے تخیلی مسلمانوں میں سے ایک ،احرار رہنماؤں کی صف اول کی دوسری صف میں صف اول کے رہنما ، دل کے غنی ، زبان کے دھنی، بات نیزے کی انی، شاہ جی کے عشق اور افضل حق کے کروفر کی تصویر، صحیح العقیدہ مسلمان ، لائل پور کے زندہ دلوں کی روح رواں ۔ ایک اجلا اور صاف ستھرا انسان جو شاید دھوکہ کھاسکتالیکن دھوکہ دے نہیں سکتا۔ حب رسولؐ کے معاملہ میں مسلمان بھی ہیں مومن بھی ہیں ، قلندر بھی ہیں ، مجذوب بھی ہیں سالک بھی ہیں، صوفی بھی ہیں مجاہد بھی ہیں اور غازی بھی۔ حضرت مولاناتاج محمود ریلوے کالونی مسجد کے خطیب تھے ، کسی زمانے میں ہم سب کاطریقہ تھا کہ جمعہ کسی نہ کسی مشہور خطیب کے پیچھے پڑھنے جایا کرتے تھےکیونکہ مساجد بہت کم تھیں اوربلند آہنگ خطیب توپورے شہر میں چار ہی مشہور تھے ہمارے قرآن کے مدرس قاری سید شمس الرحمن شاہ مولانا تاج محمود کے پیچھے جمعہ پڑھنے کو پسند کرتے تھے ہم نوخیزطلباء مولاناضیا ء القاسمی یامولانا محمد صدیق بلوچ کے پیچھے پڑھنا زیادہ پسند کرتے تھے لیکن کبھی کبھی استاد جی کادل رکھنے کیلئے مولاناتاج محمود کے پیچھے بھی جایاکرتے تھے۔ ان کی حکومت پر ہلکی پھلکی تنقیدسمجھ آجایا کرتی تھی لیکن مولانا تاج محمود سے باقاعدہ تعارف اس وقت ہوا جب میں جامعہ میں داخل ہوا اورطارق آباد میں خطابت شروع کی کیونکہ کسی سے تعارف کیلئے کچھ بہانہ تو ہونا چاہئے ۔مولاناتاج محمودنے بڑی آؤ بھگت شروع کردی اور ایک سترہ سالہ لڑکے کوبہت زیادہ اہمیت دی تو ہم بھی انہی کے دلداہ ہوگئے ۔جمعہ کی صبح نماز فجر کے بعد مولاناکے گھرجانالازمی تھا صبح کا ناشتہ انہی کے ساتھ کیاجاتا اور دس گیارہ بجے تک بیٹھک ہوتی ۔چونکہ مولانا تحریک ختم نبوت کے قائد تھے، ہفت روزہ لولاک کے مالک تھے ان کا حلقہ احباب اس دور کے بڑے لوگ تھے اس لیے ان کی خدمت میں حاضری دے کر بڑی خوشی ہوتی بلکہ سعادت سمجھی جاتی تھی۔ ایک بار میں عیدالاضحی کی نماز تاندلیانوالہ سے پڑھا کرفوراً فیصل آباد کیلئے چلاآیا۔ لاری اڈے سے کوئی بس نہ ملی اس کے انتظار میںظہرکاوقت ہو گیا تقریباً شام تین بجے میں فیصل آباد پہنچا ۔ جھال والے پل پر اتر کر اپناسائیکل جومولاناتاج محمود کے گھر کے سامنے کھڑاکیا تھا اسے چپکے سے کھینچا کہیں مولانا اس کی آواز سن کر باہر آجائیں گے تو گھر جانے نہیں دیں گے ۔لیکن جس سے ڈرتا تھا وہی ہوا ۔مولانا نے مجھے دیکھ لیا اورآواز دے کر پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ عرض کیا تاندلیانوالہ نماز عید پڑھا کر۔ کہنے لگے تب تو یقیناً تم نے صبح سے کچھ کھایانہ ہوگا۔ عرض کیا والدصاحب نے جلد آنے کی تاکید کی تھی کہ قربانی کرناہے آؤ گے توہو گی۔ اس لیے میں کچھ کھائے پیے بغیر ہی عید پڑھا کر نکل آیاہوں۔ مولانامسکرائے کہ میں کسی اور نقطہ نظرسے کہہ رہاہوں کہ اہل حدیثوں کا خطیب گھر سے ہی کھاتاہے۔ آج بھی انہوںنے تمہیں کہاں کچھ کھلایاہوگا۔مجھے رکنا پڑا مولانا نے اسی وقت گرم گرم کھاناتیار کروایا ۔ مولانا کی سرپرستی کی وجہ سے مجھے ختم نبوت کانفرنس چنیوٹ میں دو تین دفعہ تقریر کاموقع بھی ملا۔
ختم نبوت کا نفرنس چنیوٹ سے خطاب
جنرل ضیاء الحق نے 1978میں مارشل لاء سخت کردیاتھاانہی دنوں چنیوٹ میں سالانہ ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی ۔ کانفرنس تین دن کی ہوتی تھی ۔ پہلے دن کوئی ڈھنگ کا مقرر نہ تھا ۔ مولاناتاج محمود نے سٹیج سیکرٹری سے میراتعارف کرواتے ہوئے کہا کہ آج یہ نوجوان کسی بڑے مقرر کی جگہ بولے گا۔ سٹیج سیکرٹری نے مجھے صرف دس منٹ دیے ۔ میں نے اپنے ذہن میں منصوبہ بندی کرلی تھی ۔ خطبہ پڑھ کر میں نے پہلاجملہ کچھ اس طرح اداکیا۔’’ حضرات آج کل ایک احمدی ڈاکٹر کے نوبل پرائز کابڑاچرچاہے ۔مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ جو مقرر بھی آتاہے ۔ وہ اسی زمین پر بات اٹھاتا ہے کہ ایک احمدی کو نوبل پرائز کیوں دیاگیا۔حالانکہ اس پرائز کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن میں یہ پوچھتاہوں کہ تب اس پرائز کی ہمارے ہاں حیثیت ہی کیاہے ؟۔اس کے بعد کا جملہ لکھنے والا نہیں ہے لیکن اس جملے کی ادائیگی کیا ہوئی، سامعین میں بھونچال پیدا ہوگیا۔حاضرین پھڑک اٹھے اورمختلف نعرے لگنے شروع ہوگئے ۔ اتنے نعرے لگے کہ پانچ منٹ تک پنڈال میں گونج ہی رہی۔ اب میرالہجہ بھی جلالی ہوگیا اور اس کے بعد فصاحت و بلاغت کے وہ در وا ہوئے اور خطابت کے گل و لالہ اتنے پھوٹے کہ میں خود بھی حیران ہوگیا۔ اب سٹیج سیکرٹری سیدمنظور شاہ صاحب سارے پروگرام کو گڑبڑاتا دیکھ کر ہول ہورہے تھے لیکن میرے جوش و خروش اور سامعین کی زندہ دلی دیکھ کرانہیں مجھے اشارہ کرنے کی جرات نہیں ہورہی تھی۔ یوں میں نے پچاس منٹ اپنی خطابت کے جوہر دکھائے اور خود ہی تقریر ختم کی۔ (جاری ہے)



.
تازہ ترین