• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھوپال سے رُشدہ جمیل نے ایک پیغام بھیجا ہے:میرے اندر چھپے بچّے کی طرف سے، آپ کے اندر چھپے بچّے کو، بچّوں کا عالمی دن مبارک ہو۔ جس وقت یہ عبارت پڑھی، میری ناک سے پانی بہہ رہا تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے، اور ناک کو اپنی آستین سے پونچھ لیا۔خود اپنی حرکتوں پر ہنسی آئی۔ چلتے چلتے کچھ اور نہ سوجھا تو ہوا میں کرکٹ کے بالر کی طرح خیالی بال پھینک دی، کوئی دیکھ نہ رہا ہو تو پلیٹ میں بچی ہوئی کھیر زبان سے چاٹ لی۔لفٹ سے نکلتے ہوئے ساری منزلوں کے بٹن دبادئیے اور بارش کا پانی بہتے دیکھا تو رہا نہ گیا اور کاغذ کی ناؤ بنا کر تیرادی۔
نومبر کی ان ہی تاریخوں میں دنیا میں بچّوں کا دن منایا جاتا ہے۔ مجھے تمام دنوں میں یہ ایک دن سب سے زیادہ عزیز ہے۔ اس کا سبب سیدھا سادا ہے۔ مجھے بچّے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ شاید اس میں میری خود پسندی شامل ہے۔ وہ یوں کہ میرے اندرجو میرا بچپن ہوا کرتا تھا وہ کہیں نہیں گیا۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ ہر ایک کے اندر اس کا بچپن چھپا ہوتا ہے تو ایک پرانا مقولہ درست ثابت ہوجاتا ہے کہ انسان کی شخصیت کے اندر، بہت اندر نیکی موجود ہوتی ہے۔ یہ تو باہر کے حالات ہیں جو کبھی کبھی اس سے یہ جوہر چھین لیتے ہیں۔
ذرا سوچئے کہ وہ چپ چپ سا رہنے والا بچہ، جو کبھی کچھ نہیں کہتا، وہ ماں کی انگلی پکڑ کر چلتا ہے تو سچ یہ ہے کہ چلتا نہیں، دوڑتا ہے کیونکہ ماں اُس کی نہیں، اپنی چال چل رہی ہوتی ہے۔وہ اس کے چھوٹے چھوٹے پاؤں، ذرا ذرا سے جوتے، ایک پاؤں کا موزہ ڈھیلا، دوسرے کا اوپر کو کھینچا ہوا، چلا جارہا ہے۔ جیسا پہنا دیا اسی میں خوش ہے، جو کھانے کو مل گیا، چاہ سے کھا لیا اور منہ اپنی آستین سے پونچھ لیا۔ بڑوں کے آگے نظریں جھکائے ہوئے، ان کی دعائیں لیتا ہوا، اور خود ان دعاؤں کے مطلب سے کچھ بے خبر، کچھ بے نیاز۔اسے صرف باپ کے کاندھوں پر سوار ہوکر کھیلنے سے غرض ہے یا ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر جھول جانے سے مطلب ہے۔ گڑیا میلی ہوجائے تو کچھ نہیں کہتا، بندر جھانجھ بجا نا بند کر دے تو بس حیران ہو کر رہ جاتا ہے۔ کبھی تنہا بیٹھا خود سے کھیل رہا ہو اور کوئی چھپ کراسے دیکھے تو یہی کہے کہ گھر میں یہ فرشتہ کب اترا اور کیسے؟
مگر ایک مسئلہ بڑا گمبھیر ہے۔وہ یہ کہ بچّے کبھی کبھی دکھ بھی دیتے ہیں۔ جب کبھی دنیا کے کسی علاقے پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں، بچّوں کی حالت دیکھی نہیں جاتی۔ پریشان، حیران، گھبرائے ہوئے،بوکھلائے ہوئے، کچھ سمجھنے سے معذور، کچھ کہنے سے محروم، گھر والے بھاگ رہے ہیں مگر اتنا تو جانتے ہیںکہ کہیں کسی کی پناہ میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بچّوںکو تو کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا۔ اگر ماں کی انگلی تھامنے یا باپ کی گود میں جانے کی نعمت مل جائے تو اسی کو سہارا بنا کر چلے چلے جاتے ہیں اور کچھ جانے بغیر، کچھ سمجھے بغیر۔ یہ بھی غنیمت ہے اور یہ بچّے ان بچّوں سے بہتر ہیں جو گھر کاسامان اٹھائے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ پھر ان کے اور ماں باپ کے درمیان فاصلہ بڑھتا جاتا اور بڑھتے بڑھتے بات کھوجانے، گم ہوجانے اور لاپتہ ہوجانے تک جا پہنچتی ہے۔ باپ اپنے آنسو ہتھیلیوں میں جذب کرلیتا ہے لیکن ماں پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے۔ اس سانحے کی یہ تصویر میں اس لئے کھینچ رہا ہوں کہ ہم نے یہاں یورپ میں بیٹھ کر ٹیلی وژن پر شام اور عراق سے لٹے پٹے قافلوں پر قافلے آتے دیکھے ہیں۔ہم نے ایسے ایسے دل دکھانے والے منظر دیکھے ہیں کہ بارہا یہ کہہ کر چینل بدلنا پڑا کہ بس، اب اور نہیں دیکھا جاتا۔ادھر افریقہ کا حال برا ہے۔ اس براعظم پر ایسی بپتا ٹوٹی ہے کہ لوگوں کا بس چلے تو اس سرزمین کی ساری آبادی اٹھ کر یورپ چلی آئے۔ پورے افریقہ سے لاکھوں کنبے شمال کی طرف چل پڑے ہیں اور بوسیدہ کشتیوں میں بیٹھ کر بحیرہ روم عبو ر کرکے یورپ کے ساحل پر اترنے کا خواب دیکھتے دیکھتے وہیں کہیں راہ میں غرق ہو رہے ہیں، مرد بھی، عورتیں بھی او ربے زبان بچّے بھی۔ اس پر شام کا وہ کمسن لڑکا یاد آتا ہے جو سمندر پار کرنے کیلئے ماں باپ کے ساتھ ناقص کشتی میں سوار ہوا، کشتی ڈوب گئی۔ سب تو کسی طرح بچ گئے، ننھے بچے کی وہ چھوٹی سی لاش کہیں ساحل پر لگی جس کی ایک اخباری فوٹوگرافر نے تصویر اتار کر دنیا کے اخباروں کو بھیج دی۔ اس تصویر نے پوری خلقت کے دل دہلا دئیے۔بچّہ نہ ہوتا،کوئی معمر عورت یا مرد ہوتا تو کسی کے سینے پر تیر کی طرح نہ لگتا۔ اور ویت نام کی ہولناک جنگ کی تباہ کاری کی وہ تصویر لوگوں کے دل و دماغ میں آج تک محفوظ ہے جس کے پس منظر میں آگ لگی ہے اور کچھ پریشان حال بچّے اور ایک کم عمر برہنہ لڑکی اس آگ سے نکل کر بھاگ رہی ہے۔حال ہی میں شام کے ایک نو عمر لڑکے کی تصویر نے پوری دنیا کو جھنجھوڑا جس کو کسی ڈھے جانے والی عمارت کے کھنڈر سے نکال کر ایمبولینس میں بٹھایا جارہا تھا اور جس کا خاک میں اٹا ہوا چہرہ خون سے لت پت تھا۔اس کی خاموشی مارے ڈالتی تھی۔ اپنی بات پھر دہرانے کو جی چاہتا ہے کہ بچّے کبھی کبھی دکھ بھی بڑے دیتے ہیں۔
زمین پر آباد کُل مخلوق میں سب سے زیادہ قابلِ رحم بچّے ہی ہیں۔ اُن گھرانوں کا تصوّر کیجئے، اور ان کی کوئی کمی نہیں، جہاں شوہر اور بیوی کے درمیان جنگ چھڑی ہوتی ہے۔ اور جب گھر کے محا ذ پر چیخم دھاڑ کا عالم ہوتا ہے اور بچّے خود کو کمرے میں بند کرکے اپنے کانوں میں انگلیاں دے کر رونے لگتے ہیں، اس وقت بچّوں کے بے حد حساس ذہن پر جو نقش ابھرتے ہیں، ماہرین مانتے ہیں کہ وہ نقش زندگی بھرنہیں مٹتے بلکہ بچّے کی پوری شخصیت میں کجی پیدا کردیتے ہیں۔ بچّوں پرترس اُس وقت آتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے اور چپ رہنے ہی میں عافیت جانتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے۔ وہ یہ کہ جو ماں یا باپ بچّوں کو مارتے پیٹتے ہیں ان کے بچوں کاکوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ ماں یا باپ کے ذاتی مسائل، الجھنیں اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں جس کا حساب وہ بے قصور بچوں پر چکاتے ہیں۔ بالکل یہی حالت بچوں پر تشدد کرنے والے اسکول کے ٹیچر یا مکتب کے ملّا کی ہوتی ہے۔ ان کی نفسیاتی محرومیاں ظلم بن کر ظاہر ہوتی ہیں۔ہم نے انٹرنیٹ پر ایک ایسا ٹیچر دیکھا جس نے پہلے بچوں کو قمچیوں سے مارا، پھر مرغا بنایا اور آخر میں ان کے پیچھے جاکر اس وقت تک لاتیں ماریںجب تک وہ کچّی زمین کی خاک پر گر نہیں گئے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ ہر سال نومبر کی بیس تاریخ کو بچوں کا عالمی دن مناتا ہے۔ اس کا بڑا مقصددنیا بھر کے بچوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ وہ سب ایک ہیں اور یہ کہ ان کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ یہ دن منانے کا ایک مقصدیہ بھی ہے کہ بچوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جائیں۔ اس روز اسکولوں میں بچوں کو ان کے وہ حقوق سمجھائے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے منشور میں طے ہوچکے ہیں اور جس منشور پر دنیا کے ملکوں نے دستخط کئے ہیں۔ اس روز بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ جن ملکوں میں بچوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں کیا ہوتا ہے جو دوسرے ملکوں میں بھی ہونا چاہئے۔اس کے لئے میڈیا یعنی ریڈیو، ٹی وی اور اخباروں پر بھی ذمہ داری آتی ہے کہ وہ کیا چھوٹے کیا بڑے، سب ہی کو توجہ دلائیں کہ یہ نیک،پاکباز، کم گو، کم سمجھ اور فرشتہ صفت بچے ہمارے پیار، ہماری توجہ اور ہماری شفقت کے مستحق ہیں۔
چلئے زیادہ نہیں، ان جگر کے ٹکڑوں کو دیکھ کر ذرا سا مسکرادیا کریں، اس کے جواب میں ان کے چہرے پر جو ہلکی سی، خفیف سی مسکراہٹ نظر آئے گی، اس پر شفق کی لالی بھی صدقے اور افق کی سرخی بھی قربان۔




.
تازہ ترین