• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منفی سیاست کرنے والوں کو مثبت سیاست کرنے کا مشورہ

پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف سکولز ریفارمز روڈ میپ پر غور کرنے والے اجلاس کی صدارت کے دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سیاسی روڈ میپ کو بھی زیر تبصرہ لے آئے اور فرمایا کہ منفی سیاست کرنے والے اپنی مسلسل ناکامیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش بھی کریں۔ انہوں نے اس دوران لوکل باڈیز کی مخصوص نشستوں پر بھاری تعداد میں مسلم لیگ نون کے امیدواروں کی کامیابی پر مبارکباد بھی پیش کی۔ اس مقابلے میں تحریک انصاف تمام امیدواروں کے خلاف صرف ایک نشست پر کامیابی دکھاسکی۔منفی سیاست کو اپنانے والوں کو یہ مشورہ دینا کہ وہ مثبت سیاست کا انداز اپنانے کی کوشش کریں کیپٹل ازم کی سیاست کرنے والوں کو سوشلزم کی سیاست شروع کرنے کا مشورہ دینے کے مترادف ہے جو کہ قطعی طور پر ناقابل عمل قرار دیا جاسکتا ہے اور سوشلسٹ سیاست کرنے والوں کو کیپٹل ازم کے سیاسی حربے اختیار کرنے کا مشورہ بھی نہیں دیا جاسکتا۔ دیا جاسکتا ہے تو اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔مذکورہ بالا حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس نوعیت کے سیاسی مشورے قیام پاکستان کے بعد کے ستر سالوں کے دوران مسلسل اور متواتر سننے میں آرہے ہیں اور اپنی قومی سیاست کی حالت زار پر توجہ دیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس تمام عرصے میں ان مشوروں پر عمل کرنے کی کوششوں کی ناکامی کا کرشمہ ہی ہے کہ قومی سیاست کی یہ حالت ہوچکی ہے، یقینی طور پر یہ حالت منفی سیاست کرنے والوں کی طرف سے مثبت سیاست اختیار کرنے اور مثبت سیاست کرنے والوں کی جانب سے منفی سیاست اختیار کرنے کی کوششوں کے ذریعے ہی پیدا ہوسکتی ہے اور اس نوعیت کی ستر سالہ کوششوں کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہماری قومی سیاست نہ منفی رہی ہے اور نہ ہی مثبت کہلانے میں کامیاب ہوسکتی ہے اور آخری تجزیے میں محض ناکام سیاست کہلاسکتی ہے۔کہیں ایک مشورہ اس نوعیت کا بھی دکھلائی دیتا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف پاکستان عمران خان قائد اعظم محمد علی جناح یا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو جیسی عوامی توجہ حاصل کرنے والے نعرے کے ساتھ سیاست کے میدان میں داخل ہوں مگر عمران خان سیاست کے میدان میں داخل تو ہوچکے ہیں دوبارہ داخل ہونے کے لئے انہیں ایک مرتبہ اس میدان سے باہر جانا پڑے گا اور سیاست کے میدان میں داخل ہونے کے بعد سیاست کے میدان سے (زندہ) باہر جانا مشکل ہوجاتا ہے واپسی کے راستے عام طور پر معدوم ہوجایا کرتے ہیں اور معدوم راستوں کو عبور کرنا بہت ہی زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان کی تحریک کے لئے جو نعرہ لگایا اس کے پیچھے صدیوں کی سوچ کام کررہی تھی اور قائد عوام بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کے جس نعرے کے ساتھ میدان سیاست میں قدم رکھا تھا وہ بھی عوام الناس کی مجموعی سوچ اور مشترکہ خواہشوں کی ترجمانی کررہا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان صدیوں کی سوچ اور عوام کی مجموعی سوچ اور مشترکہ خواہشوں کو کسی ایک نعرے کی صورت کیسے دیں؟ وہ تو معلوم ہوتا ہے کہ پکی پکائی خوراک اور بنی بنائی حکومت کے خواہش مند ہیں اور یہ دونوں چیزیں کہیں سے دستیاب نہیں ہوسکتیں،کہیں ہوں گی تو دستیاب کی جاسکیں گی؟

.
تازہ ترین