• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے دوست جاوید شاہین بھی گئے ,,,,گریبان… منوبھائی

روک لیتا ہوں اگر گرنے لگے دیوارِ خواب
خواب کے اندر کہیں پر جاگتا رہتا ہوں میں
اس شعر اور ایسے بے شمار خوبصورت شعروں کا خوبصورت شاعر جاوید شاہین اپنی 76 ویں سالگرہ سے صرف چار روز پہلے جمعرات 23 اکتوبر کو سہ پہر کو خواب کے اندر سے دائمی خوابوں کی دنیا میں چلے گئے۔ کہا جاتا ہے اور شاید صحیح بھی ہے کہ میں نے اپنے کالم ”گریبان“ میں جس اردو شاعر کے سب سے زیادہ اشعار نقل کئے ہیں وہ جاوید شاہین تھے بلکہ جاوید شاہین ہیں۔ اُن کو ”تھے“ اُس وقت لکھا جائے گا جب لوگ اُن کے شعروں کو بھول جائیں گے اور اُن میں اپنے خواب دریافت نہیں کریں گے۔
ماضی کی طرح مستقبل کے ”گریبانوں“ میں بھی جاوید شاہین اور ان کی شاعری کی باتیں ہوتی رہیں گی۔ سال 2006ء میں اپنی شاعری پر صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی حاصل کرنے والے جاوید حکومت پنجاب کے لوکل باڈیز کے محکمہ کے ایڈیشنل سیکرٹری کے طور پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر اپنی ہمہ وقت توجہ شاعری اور نثر نگاری پر دینے لگے۔ انہوں نے اردو شاعری میں زخم مسلسل کی ہری شاخ، صبح سے ملاقات، نیکیوں سے خالی شہر، جاگتا لمحہ اور دیر سے نکلنے والا دن کے عنوانات سے اپنے مجموعے شائع کرانے کے علاوہ ”عشق تمام“ کے عنوان سے اپنی کلیات بھی شائع کروائی۔ اس کے علاوہ ”میرے ماہ و سال“ کے عنوان سے اپنی یادداشتیں بھی شائع کیں جو بعض لوگوں اور ان کے اپنے دوستوں کے خیال میں غیر ضروری یا ضرورت سے زیادہ صاف گوئی اور جرأت مندی یا آزادی تحریر کے نمونے قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہانیاں اور افسانے بھی لکھے۔ ایک ٹیلی ویژن کھیل ”محبت سے آگے“ کے خالق بھی ہیں۔ نثری تخلیق میں ان کی زندگی کا یادگار کارنامہ بائیں بازو کے عظیم دانشور لیون ٹرائسکی کی سوانح عمری کا اردو ترجمہ ہے۔
آج کے ”گریبان“ میں ان کی چند ایک نمائندہ نظموں کے حوالے دینے پر اکتفا کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی ایک نظم ”بہت مصروف رہتا ہوں“ کے عنوان سے کچھ یوں ہے :
بہت مصروف رہتا ہوں
دلوں کے سرد موسم پر
چمکتی دھوپ کا ٹکڑا بچھانے میں
محبت کے کسی ویران ساحل پر
پڑی ہے موج چھوٹی سی
اسے دریا بنانے میں
وہ اچھے دن
ابھی جو خواہشوں کی منزلوں میں ہیں
انہیں نزدیک لانے میں
گزر اوقات کرتا ہوں
میں اپنے جس خرابے میں
وہیں اک شہر کی تعمیر میں
مصروف رہتا ہوں
سوادِ چشم میں
ٹھہرا ہوا جو خواب ہے کب سے
میں بس اُس خواب کی تعبیر میں
مصروف رہتا ہوں
جاوید شاہین کی ایک اور نظم ”دیر سے کھلنے والا راز“ ہے
کوئی خواب تھا بڑا خوش قبا
جسے اوڑھ کر میں پڑا رہا
وہ جو خواب تھا اسی میں کہیں
تھا چھپا ہوا کوئی جھوٹ بھی اسی خواب کا
میری چشم بند پہ راز یہ بڑی دیر بعد کہیں کھلا
یہ جو عرصہ تھا مری عمر کا کسی جھوٹ ہی میں گزر گیا
ایک اور نظم میں جاوید شاہین بتاتے ہیں کہ وہ نظم کیسے لکھتے ہیں :
جہاں بھی ہو اُداسی
آہی جاتی ہے خبر مجھ تک
کسی تنہا مسافر کا
پہنچ جاتا ہے سب رنج سفر مجھ تک
جہاں جتنی بھی ہو تنہائی
اُس کو دیکھ لیتا ہوں
چھپی ہو جس قدر زیبائی
اُس کو دیکھ لیتا ہوں
میں سن لیتا ہوں
تھوڑی یا بہت جیسی ہو خاموشی
سمجھ جاتا ہوں
موسم سے ہوا کی نرم سرگوشی
کسی اَن دیکھی دُنیا کے
دریچے باز کرتا ہوں
میں یہ سب جمع کر کے
نظم کا آغاز کرتا ہوں
تازہ ترین