• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلاول بمقابلہ عمران خان شاید اتنا آسان تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔ بلاول ما شاءاللہ عمر کے اس حصے سے گزر رہے ہیں جہاں شب و روز اپنی فطری جولانیوں اور کلکارے مارتے شراروں کے علاوہ کسی دوسرے مقام کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔ عمران خان کا دامن بھی عمر کے اس ماضی کے حوالے سے کسی سے کم نہیںرہا۔ وہ بلاول کے سن تک پہنچتے پہنچتے دنیا بھر میں کہیں’’پلے بوائے‘‘اور کہیں ’’پرنس‘‘ کے خطاب سے جانے جاتے۔ کرکٹ کے عالمی کپ کے ناقابل فراموش مشاہدے کی گھڑی تک عمران خان سارے عالم کے مرکز نگاہ تھے۔ کھیل کی دنیا ہی میں نہیں بین الاقوامی سماج میں بھی ان کا مقام بلند و بالا، غیرمتنازع اور عالمگیر رہا۔ اس تناظر میں تو اب بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ شباب کی ان دھڑکتی، اچھلتی اور چمکتی ساعتوں میں عالم تمام کے اسپورٹس کے اسپورٹس اسٹارز میں، دوسرے کھیلوں سمیت، شاید ہی ان جیسی اسٹار مقبولیت، شناخت اور عزت کسی اور کو نصیب ہوئی ہو۔ ذاتی شخصیت میں انانت کا عنصر بسا اوقات تکلیف دہ اور غیرانسانی رویوں کو چھو جاتا، اس معاملے میں وقتاً فوقتاً ایسے واقعات بھی ہوئے لوگوں نے جنہیں قدرت کی جانب سے وارننگ ڈکلیئر کیا۔ پاکستان کی تاریخ ہی میں نہیں اسپورٹس کی تاریخ میں بھی غالباً واحد ’’اسٹار کھلاڑی‘‘ تھے جنہیں اپنی ریٹائرمنٹ کے اولین اعلان پر پاکستانی عوام کے سیلابی درجے کے عوامی احتجاج پر اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ کرکٹ سے بالآخر جب رخصت ہوئے انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھایا۔ تردید ناممکن، خامیاں نکالتے رہیں، احسانات کی فہرست بناتے رہیں لیکن انسانی خدمات کے ’’عمرانی ٹاور‘‘ کی ایستادگی وہیں کی وہیں ہے۔ اسے عوام کی سند قبولیت حاصل ہے۔ انسانی خدمت کے اس ’’عمرانی ٹاور‘‘ کو جملے بازیاں اور گفتار کی کارستانیاں اپنے آپ کو ہلکا بلکہ پھلکا کرنے کے مترادف ہے۔ کم از کم اس سلسلے میں مستقلاً ایسا ہی رہے گا!
عمران نے ان گزرے بیس بائیس برسوں میں جس قومی اور سیاسی جدوجہد میں زندگی گزاری وہ اپنے ساختیاتی عمل میں لوگوں کے ہاں رجسٹر ہوئی، اسے روٹین کی ایکٹویٹی کے طور پر نہیں لیا گیا ’’کرکٹر عمران،کی بلند و بالا قامت ہمیشہ پاکستانیوں کے لاشعور میں موجود رہی ۔ اب بھی کوئی پاکستانی عوام کے ذہنوں کی اس لاشعوری پسندیدگی کی مکمل نفی کا فلسفہ بے شک سامنے لاتا رہے زمین کی حقیقت ، اس کی تائید نہیں کرتی۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں، عمران کیلئے پاکستانیوں کی جانب سے ناپسندیدگی، مایوسی، افسوس اور غلط ٹائمنگ پر ان کی پریشان خاطری کے آثار پوری شدت سے ابھرتے، ان ساری کیفیتوں میں عمران کے بارے میں ’’بیزاری‘‘ کی نکتہ آرائی تو کی جاسکتی ہے لیکن پاکستانیوں نےاس کی شخصیت پر نفرت کا کوئی شوشہ تک رقم نہیں کیا۔ پھر عمران خان کا قومی سیاست میں ’’تاریخی سیاسی ٹریجڈی‘‘ کے اختتامی امکانات کیونکر یقین کی سرحدوں کے انتہائی نزدیک آچکے ہیں؟
انسانی شخصیت کی تمام ممکنہ سطحات کا اپنی حد تک ممکنہ ادراک کرتے، خاکسار عمران کے لئے ’’چھوٹے‘‘ کے لفظ کا استعمال سو فیصد گناہ گردانتا ہے۔ جنہیں اختلاف کرنا ہے کریں ان کی مختلف رائے کا سو فیصد احترام، ہاں! تو وہ ’’چھوٹے‘‘ نہ کبھی تھے نہ ہیں البتہ اپنی بات پر قائم نہیں رہتے۔ کیا قائداعظمؒ کے بارے میں اس صدی کاکوئی آدمی یہ گمان تک کرنے کو تیار ہوسکتا ہے؟ قائداعظمؒ کا یہاں ریفرنس اچانک نہیں آیا یہ مشکل ترین میرٹ خود عمران خان کا انتخاب ہے وہ گزرے بیس برسوں سے زائد کی اپنی قومی اور سیاسی جدوجہد میں سب سے زیادہ اورسب سے بنیادی اصولی کردارکے لئے مثال ہی قائداعظمؒ کی پیش کرتے ہیں!
علامہ طاہر القادری کے اشتراک سے اپنے پہلے دھرنے کے تقریباً سوا سو سے زائد ایام میں آپ نے ’’نوازشریف استعفیٰ‘‘ کا نعرہ اورمطالبہ، ایسے ’’عہد‘‘ کے ساتھ کیا جس پر قائم رہنے کو انسانی نجابت کی شناخت قرار دیا گیا ہے۔ وہ ایسا ’’عہد‘‘ یہ تھا ’’آپ سب چلے بھی جائیں میں نوازشریف کے استعفیٰ دیئے جانے تک اکیلا یہیں پر رہوںگا‘‘ اس سوال کا محرک بھی آپ کے مرکزی تذکرے یعنی قائداعظمؒ کی ذات بنا ہے۔ سب سوالات اسی چشمے سے پھوٹ رہے ہیں۔ جواب دینا ان کی عظمت کی پاسداری کا ناگزیر تقاضا ہے۔ بصورت دیگر آپ کی خدمت میں ان کا ذکر نہ کرنے کی درخواست بھی دی جاسکتی ہے، ہم نہیںچاہتے آپ کا نام بھی قائداعظمؒ کو ایکسپلائٹ کرنے کی بے برکت فہرست میں شامل کرلیا جائے۔ دل میں اداسیاں گھر کرلیں گی! کیا آپ شرح صدر اور قلب مطمئنہ کو گواہ بنا کر کہہ سکتے ہیں ’’تھرڈ امپائر‘‘ سے آپ کی بے ساختہ مراد ’’دنیاوی‘‘ نہیں ’’کائناتی‘‘ تھی؟
بلاول پر گفتگو نے آخری موڑ مڑنا ہے اس لئے خان صاحب فی الحال ان مثالوں پر اکتفا کریں۔ پاکستان کی سب بڑی ’’امکانی تاریخی ٹریجڈی‘‘ وہ قومی پارلیمنٹ کے قومی ایوان کی نفی کے باعث ہوتے جارہے ہیں، اب وہ چاہ کر بھی پارلیمنٹ کی پناہ میں نہیں جاسکتے۔ خان صاحب نے جمہوری سفر میں ہی آج کے عصر کی ناگزیر طاقت ’’پارلیمنٹ‘‘ کو دونوں ہاتھوں سے جھٹک دیا۔
بلاول بمقابلہ عمران، جواں سال چیئرمین کے سیاسی اثاثے میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قومی تاریخ، ذوالفقار علی بھٹو، بی بی شہید اور آصف علی زرداری کی فکری اپروچ ہے جس کااب تک ریکارڈ کی روشنی میں کلائمکس وہ اظہاریہ تھا جس نے سابق صدر کی زبان سے اس وقت جنم لیا جب بی بی سفر شہادت کو سرفرار کرچکی تھیں۔ آصف علی زرداری نے بی بی شہید کے چہلم سے فرصت پاکر نوڈیرو کی شہادت گاہوں سے اعلان کیا تھا:’’لوگ سمجھتے ہیں محترمہ مجھے کرسی سے باندھ گئی ہیں جبکہ انہو ںنے مجھے قبر سے باندھ دیا ہے۔ وہ نظام بدلنا چاہتی تھیں اسی لئےانہیں قتل کردیا گیا۔ میں بینظیر کا مشن جاری رکھوں گا۔ میں یہ عزم لے کر گڑھی خدابخش سے نکل رہا ہوں کہ یا تو وہ ٹولہ ختم ہوگا جس نے بینظیر کو ختم کیا یا میں شہید ہو کرگڑھی خدابخش میں دفن ہو جائے گا‘‘بلاول بھٹو زرداری نے ایک ہاتھ میں آئین کی کتاب اور دوسرے میں پارلیمنٹ کا علم اٹھا کر نظام کی تبدیلی کے اس راستے پر قدم بڑھائے ہیں۔ عمران خان نے ان دونوںکو ’’ترک‘‘ ہی نہیں کیا آئین و پارلیمنٹ کے لئے ایک طرح کی ضدی بے اعتنائی، لاپروائی اور آئین و پارلیمنٹ کی عدم شناخت کی مثلث چن لی۔ ظاہر ہے بلاول کا سفر کھلے میدان میں اور عمران کا سفر مثلث کی ’’قید‘‘میں جاری رہے گا۔ دونوں کے فرق کا وزن جاننا قطعی کوئی مسئلہ نہیں۔ اس حقیقت کی رو سے تو بالکل ہی نہیں جس پر ایک صاحب نظر کا کہنا ہے:’’مذہبی اشتعال انگیزی اور مسلح کارروائیوں کے ذریعے جمہوریت کو غیرمستحکم کرنے کا تجربہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے!‘‘




.
تازہ ترین