وزارت مذہبی امور نے اس دفعہ حج کے بہترین انتظامات کئے تھے جس پر وہ خراج تحسین کی مستحق ہے۔ وزارت مذہبی امور کے علم میں یہ لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ امیگریشن، ائیرپورٹ پربورڈنگ کارڈ کے حصول اور اس ہی طرح دیگر ضروری مقامات پر حاجیوں کو سب سے بڑا مسئلہ زبان کا درپیش ہوتا ہے۔ عرب اسٹاف اردو نہیں سمجھتا اورحاجیوں کو عربی نہیں آتی جس کے باعث انہیں غیر ضروری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے مقامات پر وزارت مذہبی امور کا ایک نمائندہ ضرور ہونا چاہئے جو عربی اور اردو جانتا ہو اور کسی حاجی کو اگر کوئی انفرادی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اسے حل کر اسکے۔ وطن واپسی پر جدہ ائیرپورٹ پر مجھے ذاتی طور پر جس تجربے سے گزرنا پڑا اس کا ذکر کرنا چاہوں گا ممکن ہے دیگر حاجیوں کو بھی ایسے تجربات سے گزرنا پڑا ہو ۔مدینہ روانگی سے پہلے بے نظیر ایئرپورٹ پر بیشتر حاجیوں کو واپسی کے (سعودی ائیرلائنز) کے بورڈنگ کارڈ جاری کر دیئے گئے تھے اور کئی حاجیوں سے کہا گیا تھاکہ انہیں جدہ ایئرپورٹ پر واپسی کیلئے بورڈنگ کارڈ ملے گا۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر تھی کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ جب میں جدہ ائیرپورٹ پر بورڈنگ کارڈ کے حصول کیلئے پہنچا تو سعودی اہلکار نے میرا پاسپورٹ کمپیوٹر میں ڈالا اور بغیر بورڈنگ کارڈ جاری کئے ’’یلہ یلہ‘‘ کہتے ہوئے دوسرے کائونٹر کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ وہاں بھی اسی طرح کا سلوک ہوا اور مجھے کارگو سے بورڈنگ کارڈ لینے کیلئے بھیج دیا۔ جنہوں نے پھر اسی کائونٹر پر بھیج دیا۔ دو گھنٹے تک مجھے اسی طرح پریشان کیا گیا اور یہ پریشانی صرف میں ہی جان سکتا ہوں۔ آخر میں عربی زبان میں بتایا گیا جس سے مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ آپ کا بورڈنگ کارڈ ایشو ہو چکا ہے دوبارہ جاری نہیں ہو سکتا میں نے انگلش میں وضاحت کی کہ مجھے بورڈنگ کارڈ نہیںملا۔اس مرتبہ کائونٹر پر بیٹھے شخص نے مزید سخت لہجے میں کہا ’’یلّہ یلّہ‘‘ ۔ اس پریشانی کے عالم میں کارگو میں کام کرنے والے ایک بنگالی سے استدعا کی کہ انہیں عربی میں میری پریشانی اور مشکلات سے آگاہ کریں اب حاجیوں کی لائونج میں انٹری شروع ہو گئی تھی۔ یہ بنگالی مجھے ان کے افسر کے پاس لے گیا اور اسے صورت حال بتائی جس نے کائونٹر پر آکر کمپیوٹر پر میرا پاسپورٹ چیک کیا اور بورڈنگ کارڈ جاری کرنے کی ہدایت کی اسی اہلکار جس نے مجھے دو گھنٹے سے پریشان کر رکھا تھا نے بورڈنگ کارڈ دیا اور میری جان میں جان آئی۔ میں نے دیکھا کہ بھارتی حج کمیٹی کا ایک نمائندہ ائیرپورٹ پر موجود تھا اور وہ فلائٹ مس کرنے والے بھارتی حاجی کا مسئلہ حل کرانے کے لئے متعلقہ اسٹاف سے عربی میں محو گفتگو تھا۔ ایک اور اچھی بات یہ دیکھی کہ بھارتی حاجیوں کا واپسی پر سامان ہوٹلوں سے ایک روز پہلے ہی ان کی متعلقہ فلائٹس کے کارگو پر پہنچا دیا گیا تھا واپسی پر انڈین حاجی صرف ہینڈ کیری کے ساتھ اپنے ہوٹل سے ائیرپورٹ جا رہے تھے ۔ اس کے برعکس پاکستانی حاجی جدہ ائیرپورٹ پر اپنا سامان تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ کارگو اور بورڈنگ کارڈ کا حصول اس کے علاوہ تھے۔ وزارت مذہبی امور کی توجہ اس طرف بھی دلانا ضروری ہے کہ جب مدینہ ایئر پورٹ سے الاٹ شدہ ہوٹلوں میں بسوں کے ذریعے لے جایا جا رہا تھاتو مجھ سمیت کچھ حاجیوں کو اس وقت پریشانی اٹھانی پڑی جب انہیں بتایا گیا کہ کارڈ کے مطابق ان کی فیملی کی رہائش گاہیں الگ الگ ہیں ہم میاں بیوی پہلی بار عازم حج ہوئے تھے مجھے اور میری بیوی کو الگ الگ ہوٹل الاٹ ہوئے تھےگو یہ مسئلہ حل تو ہو گیا مگر بہت ذہنی پریشانی اٹھانی پڑی۔ وزارت مذہبی امور کو ضرور اس بات کا خیال رکھنا چاہئےکہ ایک گروپ خاص طور پر اگر گروپ میں صرف میاں بیوی شامل ہوں تو انہیں ایک ہی ہوٹل میں رہائش الاٹ ہونی چاہئے، بسوں میں پاسپورٹوں کے متبادل جو کارڈ جاری کئے گئے بعض حاجیوں کو یہ کارڈ نہ ملنے کی بھی شکایات تھیں مدینہ میں عازمین کو موبائل سموں کے حصول کا بھی بڑا مسئلہ درپیش رہا۔
.