ہمارے ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ ، جس میں ڈاکٹر انجینئر پروفیسر چارٹرڈ اکائونٹنٹ ایم۔بی۔اے وغیرہ سب شامل ہیں، حکمرانوں سے مکمل طور پر مایوس ہو چکا تھا اور کبھی ووٹ ڈالنے کے لئے گھر سے نہیں نکلتا تھا ۔ عمران خان کے نئے پاکستان کے تصور نے ان میں اتنی تحریک پیدا کردی ہے کہ اب وہ رضاکارانہ طور پر جلسے، جلوسوں ریلیوں اور دھرنوں میں بھی اپنی فیملی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ نئے پاکستان کے تصور میں زیادہ کشش اِس لئے بھی ہے کہ تصور دینے والے کی سچائی اور نیک نیتی پر نوجوانوں اور ہر عمر کے تعلیم یافتہ طبقے کو خصوصاً اور عوام کو عموماً پختہ اور غیر متزلزل یقین ہے۔
عمران خان نے اپنی پارٹی کا نام بھی اسی لئے تحریکِ انصاف رکھا کہ انصاف ہی سب سے زیادہ ضروری چیز ہے۔ ہمارے قائد اپنی تقریروں میں اکثر حضرت علی ؑکا یہ قول دہراتے ہیں کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر نا انصافی کا نظام نہیں چل سکتا۔ جب جنگِ عظیم دوم میں جرمن ائیرفورس نے برطانیہ پر اندھادھند بمباری کی تو کسی صحافی نے وزیرِ اعظم سر ونسٹن چرچل سے پوچھا کہ برطانیہ کا کیا بنے گا؟ چرچل نے اُس سے پوچھا کہ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں ۔ صحافی نے کہاجی ہاں۔ تو چرچل نے کہا کہ پھر برطانیہ کو کچھ نہیں ہوگا۔ لہٰذا تحریک انصاف ایسا نیا پاکستان بنانا چاہتی ہے جس میں ہر غریب و امیر کو بلا تفریق انصاف ملے۔ اسکی ابتدا خیبر پختونخوا سے کردی گئی ہے۔ اُس صوبے میں پولیس کو سیاسی مداخلت سے مکمل طور پر آزاد کردیا گیا ہے جو کہ ہمارے ملک کے تناظر میں ایک معجزے سے کم نہیں ہے۔ پولیس کے ایک ریٹائرڈ آئی جی پولیس طارق کھوسہ جو اپنی ایمانداری کی وجہ سے مشہور ہیں نے اپنے ایک مضمون میںلکھا کہ خیبر پختونخوا میں پولیس کا جو نظام تحریکِ انصاف نے رائج کردیا ہے وہ ہم صرف کتابوں میں ہی پڑھتے تھے۔ تمام بھرتیاں اور ترقیاں میرٹ پر ہوتی ہیں۔ تفتیش بھی میرٹ پر ہوتی ہے یہاں تک کہ وزیرِ اعلیٰ بھی کسی گنہگار کو بری نہیں کروا سکتا۔ عدالتی نظام کو بھی بہترکرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن چونکہ عدالتیں ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں اور عدالتی قواعد و ضوابط تبدیل کرنے کیلئے اعلیٰ عدلیہ اور مقننہ دونوں کے تعاون کی ضرورت ہے یہ کام خیبر پختونخوا حکومت اکیلے نہیں کر سکتی۔
دیگر پارٹیوں کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ موٹر وے اور میٹر و جیسے منصوبے بنائے جائیں جو بہت نمایاں طور پر نظر آئیں اور وہ الیکشن میں ان کا ڈھنڈورا پیٹ کر ووٹ حاصل کر سکیں۔ عمران خان کے نئے پاکستان میں سب سے زیادہ زور انسانی ترقی پر دیا جاتا ہے۔ ہماری ترجیحات میں سرِفہرست تعلیم اور صحت ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔ ہمارا ہدف یہ ہے کہ کوئی بچہ اسکول سے باہر نہ رہے ۔ معیاری او ر سستی تعلیم ہر بچے کا آئینی حق ہے۔ اس وقت ملک میں چار پانچ نظام ہائے تعلیم موجود ہیں جو معاشرے میں دولت پر مبنی متعدد طبقات پیدا کرنے اور ان کو دوام بخشنے کا سبب بنتے ہیں۔ تحریکِ انصاف خیبر پختونخوا میں یکساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے جس کی بعد میں دیگر صوبے بھی نقل کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت صحت کی سہولتیں بہتر کرنے کی بھی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ عوام الناس اس مرحلہ وار بہتری کو محسوس بھی کررہے ہیں اور اس کا اعتراف بھی کررہے ہیں۔ ہمارا ہدف یہ ہے کہ غریب آدمی کو بھی علاج کی وہ سہولتیں میسر ہوں جو امیر آدمی کو میسر ہیں۔
ہمارے ملک کی تقریباً نصف آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے ۔ جو حکومت عوام کو پینے کا صاف پانی بھی مہیا نہیں کرسکتی اس کو اپنے وجود پر شرمندہ ہونا چاہئے۔ نئے پاکستان میں اس شعبے کو پوری توجہ دی جائے گی اور آئین کے مطابق بنیادی سہولتیں ہر شہری کو فراہم کی جائیں گی۔
بے روزگاری ہمارے عوام کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ بیروزگاری کا خاتمہ نئے پاکستان کا جزوِ لا ینفک ہے۔ عوام کو روزگار فراہم کرنے کیلئے صنعتی اور زرعی ترقی لازم ہے۔ اور اسکے لئے انرجی کا وافر مقدار میں ہونا ضروری ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں بجلی کی بھی شدید کمی ہے اور گیس کی بھی۔ اس لئے تحریکِ انصاف سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر بھرپور توجہ دے رہی ہے لیکن وفاقی حکومت کے عدمِ تعاون کے باعث مطلوبہ رفتار حاصل نہیں کی جاسکی۔ عمران خان نے ایسا پاکستان بنانے کا پختہ عزم کر رکھا ہے جس کے شہریوں کو نوکری کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے کی ضرورت پیش نہ آئے بلکہ یہاں دیگر ممالک کے لوگ روزگار حاصل کرنے کیلئے آئیں۔
زراعت ہماری معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے لیکن ماضی میں اسے بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ اسی لئے ہمارے ملک میں گندم کی اوسط پیداوار تیس من ہے جبکہ انڈیا میں ساٹھ من ہے۔ نئے پاکستان میں ہمارے کاشتکاروں کو بھی وہ ساری سہولتیں ملیں گی جو بھارتی کاشتکار کو ملتی ہیں۔ اس سے پاکستان نہ صرف خود کفیل ہوگا بلکہ دنیا کو اجناس برآمد بھی کرے گا۔
ترقیاتی کاموں کا اختیار نچلی سطح پر منتقل کرنے کےلئے تحریک انصاف نے با معنی لوکل باڈیز کا نظام رائج کیا ہے۔ اب سارے ترقیاتی کام بنیادی سطح کے جمہوری یونٹ سر انجام دیں گے۔ اب مقامی ترقی کیلئے ترقیاتی فنڈز ایم۔ پی ۔اے اور ایم۔ این ۔ اے صاحبان کو نہیں بلکہ یونین کونسل تحصیل کونسل او ر ضلع کونسل کو ملیں گے ۔ دیگر صوبوں نے بھی بنیادی جمہوری ادارے قیام کرنے کیلئے قانون سازی کی ہے لیکن اگران کے قوانین اور خیبر پختونخوا کے قانون کا موازنہ کیا جائے تو روزِ روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ حقیقی بنیادی جمہوریت کا نظام صرف کے۔پی میں رائج کیا گیاہے جو نئے پاکستان کی نوید لے کر آئے گا۔
ہمارے ملک میں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے جو ہر سطح پر پائی جاتی ہے ۔ یہ خرابی ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس لئے کرپشن کا خاتمہ کئے بغیر نئے پاکستان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ کے۔ پی حکومت نے کرپشن کے خاتمے کیلئے بہت سے موثر اقدامات کئے ہیں اور ان میں سب سے اہم قدم ایک آزاد اور خود مختار احتساب کے ادارے کا قیام ہے۔ اس ادارے نے تحریکِ انصاف کے ایک وزیر کو بھی گرفتارکیا اور اسکے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ یہ خود احتسابی ہی ایک نئے پاکستان کی داغ بیل رکھے گی۔ جب حکومتی ادراے کرپشن سے پاک ہو جائیں گے تو نہ صرف عوام سکھ کا سانس لیں گے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی جو ترقی کی رفتار کو تیز کرنے اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرے گی۔