• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2015-16ء کیلئے ملکی معیشت پر اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت بلندی کی جانب گامزن ہے، ملک میں مہنگائی کم ہوئی ہے اور افراط زر 2.9 فیصد کی نچلی سطح پر رہا ہے لیکن ٹیکسوں کے عارضی اقدامات معیشت میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں۔ کم شرح سود سے ملکی طلب بڑھ گئی ہے، توانائی کی سپلائی میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ حکومت پورے معاشی اہداف حاصل نہیں کرسکی ہے مگر پھر بھی گزشتہ مالی سال کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بلند سطح پر پہنچ گئے ہیں، روپے کی قدر مستحکم ہے لیکن پہلی بار گزشتہ ہفتے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے انٹربینک ریٹ 104.85اور اوپن مارکیٹ106.85میں 2 روپے کا فرق دیکھا گیا ہے۔ ڈالر کی قدر اور طلب میں اضافہ 5,000 روپے کے کرنسی نوٹ اور 40,000 روپے کے انعامی بانڈز کی منسوخی کی افواہوں کے نتیجے میں ہوا۔ بجٹ خسارہ مسلسل چوتھے سال کم ہوکر جی ڈی پی کا 4.6فیصد پر آگیا ہے، پاکستان کو نیشنل سیونگ اور سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 2015-16ء میں پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی 4.7 فیصد رہی، ملک میں سرمایہ کاری میں معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن سی پیک منصوبوں سے امید کی جارہی ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ قلیل المدتی اقتصادی منظرنامے کے مطابق ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے سے معاشی اشارے بہتری کی طرف گئے ہیں اور اسٹیٹ بینک نے 2016-17ء کیلئے جی ڈی پی کا 5.7 فیصد ہدف رکھا ہے۔ قرضے دینے والے ادارے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک نے پاکستان کی اصلاحات کی تعریف کی ہے لیکن حکومت کے بڑھتے ہوئے قرضوں اور خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے کے نقصانات کو کنٹرول کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ نجی شعبے کی صنعتی سیکٹر میں سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے نئے مواقع کے بغیر معاشی گروتھ غیر مستحکم ہوگی۔ سوشل سیکٹر اصلاحات میں حکومتی اخراجات ناکافی ہونے پر بھی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ کرنٹ اکائونٹ میں خسارہ 0.5 فیصد سے 1.5فیصد تک متوقع ہے۔
مرکزی بینک کی رپورٹ میں ایکسپورٹ میں مسلسل کمی کو ملکی معیشت کیلئے ایک بڑا چیلنج بتایا گیا ہے جو اس سال بھی 25 ارب ڈالر کے ہدف کے مقابلے میں 20 سے 23 ارب ڈالر اور امپورٹس 42 سے 23 ارب ڈالر متوقع ہیں جبکہ رواں مالی سال تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر رہنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ 2000-01ء کے بعد پہلی بار زرعی سیکٹر میں منفی گروتھ ایک تشویشناک امر ہے جبکہ 2015-16ء میں صنعتی سیکٹر کی 6.8 فیصد گروتھ گزشتہ سال 2014-15ء کی 4.8 فیصد کے مقابلے میں 2 فیصد زائد ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ پاکستان کی معیشت اور جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے جس کو ہم غیر قانونی معیشت کہتے ہیں جو ملک میں کالے دھن کا سبب ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے ٹیکس اصلاحات کوناگزیر قرار دیا ہے جس پر حکومت نے ملکی معیشت کو دستاویزی شکل دینے کیلئے کوششیں بھی کیں لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اربوں روپے کی رئیل اسٹیٹ کی بے نامی ٹرانزیکشن اور بینکوں کے بے نامی اکائونٹس آج بھی استعمال کئے جارہے ہیں۔ رئیل اسٹیٹ ٹرانزیکشن سے اضافی ریونیو حاصل کرنے کیلئے حکومت نے حال ہی میں ان جائیدادوں کی نظرثانی مارکیٹ ویلیو کا اعلان کیا ہے جس سے کم قیمت پر ان کی خرید و فروخت نہیں ہوسکے گی جس نے رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر نہایت منفی اثر ڈالا ہے اور رئیل اسٹیٹ خرید و فروخت کے سودے نہایت کم ہوگئے ہیں جبکہ بینکوں میں رکھے گئے غیر ظاہر شدہ اکائونٹس سے رقوم کی کیش منتقلی پر حکومت نے 0.4 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لگایا ہوا ہے تاکہ انکم ٹیکس میں غیر رجسٹرڈ کھاتے دار اپنے آپ کو ٹیکس نیٹ میں رجسٹرڈ کرائیں لیکن ایمنسٹی اسکیم کے اعلان کے باوجود حکومت کو اس سلسلے میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
SECP کمپنیز قوانین میںوقت کے ساتھ تبدیلیاں نہ ہونے کی وجہ سے SECP پاکستانیوں کی بیرون ملک سرمایہ کاری کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کرسکتی لیکن حال ہی میں بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور براہ راست سرمایہ کاری کو پاکستان میں ظاہر کرنے کیلئے صدر پاکستان نے کمپنیز آرڈیننس 2016ء جاری کیا ہے۔ اس نئے سیکشن 452 کو گلوبل رجسٹرار آف بینی فیشل اونر شپ کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹرز جن کا بیرون ملک کسی کمپنی میں 10 فیصد سے زیادہ شیئرز کی شکل میں بالواسطہ یا بلاواسطہ سرمایہ کاری ہو، کو 30 دن کے اندر اپنی سرمایہ کاری اور ملکیت کو سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان میں ظاہر کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے SECP کے قانون میں اس بات کی گنجائش نہیں تھی کہ وہ پاکستانی کمپنیوں سے ان کے ڈائریکٹرز کی ذاتی حیثیت میں بیرونی سرمایہ کاری کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں۔ اس قانون سے پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثے اور سرمایہ کاری کی معلومات کے علاوہ منی لانڈرنگ پر قابو پانے اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں بھی مدد ملے گی جس سے پاکستان کی ٹیکس میں جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ اس وقت پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح خطے میں سب سے کم ہے جسے بڑھاکر ہم کو 15 سے 18 فیصد تک لے کر جانا ہوگا تاکہ اضافی ٹیکس ریونیو سے سماجی سیکٹر میں عوام کو پینے کا صاف پانی، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں اور ملک کے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جاسکے ، ملک میں غربت میں کمی اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری آئے۔
پاکستانی معیشت پر اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ہمارے ٹیکسوں کے عارضی اقدامات معیشت میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں، اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ ملک میں ٹیکس اصلاحات کے بارے میں لکھوں تاکہ ایکسپورٹرز اور صنعت پر ان ڈائریکٹ ٹیکسز جنہوں نے ہماری ایکسپورٹ کو عالمی مارکیٹ میں غیر مقابلاتی بنادیا ہے، کی بھرمار کم کرکے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ڈائریکٹ ٹیکسز کے نظام کو فروغ دیا جاسکے۔

.
تازہ ترین