• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ عرصے سے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار ایک ’’واٹس ایپ گروپ‘‘ کا ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں اور ان پر ایسے الزامات کی بارش کی جارہی ہے جن کو کوئی بھی واجبی سمجھ بوجھ رکھنے والا بندہ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ مل کر منی لانڈرنگ کر رہے ہیں۔ان کے خلاف ایک ٹریلین ڈالر کرپشن کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس گروپ نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ ’’بے رحم احتساب‘‘ اب اسحاق ڈار کو بھی اپنے شکنجے میں لینے والا ہے۔ بلاشبہ حکمراں جماعت کے کچھ سرکردہ لیڈر بھی وزیرخزانہ کے مخالف ہیں جس کی وجہ صرف اور صرف اسحاق ڈار کا اہم رول ہے جو وہ وزارت خزانہ کے علاوہ بہت سے سیاسی اور پارلیمانی امور میں اد اکر رہے ہیں۔ تاہم ایسے افراد اس ’’واٹس ایپ گروپ‘‘ کی پھیلائی جانے والی ڈس انفارمیشن اور جھوٹ کا حصہ نہیں ہیں مگر وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ وزیر خزانہ کے کردار کو محدود کیا جائے۔
نہ صرف ہماری بلکہ بہت سے باخبر حضرات کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ آخر وزیر خزانہ کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کے بارے میں مختلف باتیں کی جاسکتی ہیں مگر یہ کہنا کہ وہ بددیانت ہیں بڑی لغو اور بے بنیادبات ہے۔ پہلے دن سے ہی اگر موجودہ کابینہ کے تمام وزراء کی کارکردگی کا چارٹ بنایا جائے تو شاید کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں مل سکتا جب وہ نمبر ون پر کھڑے نظر نہ آئیں۔ ان کیلئے ہفتہ اور اتوار جوکہ وفاقی حکومت کی ہفتہ وار چھٹیاں ہیں بھی کام کے دن ہیں اور ان کا دفتر ان دنوں میں بھی مکمل فنکشنل ہوتا ہے اور مختلف قسم کی میٹنگز ہوتی ہیں۔ ابھی تک ان کے خلاف ایک بھی ٹھوس الزام سامنے نہیں آیا جس میں یہ شائبہ بھی ہو کہ وہ کسی خرد برد کے مرتکب ہوئے ہیں ہاں البتہ کچھ حکومتی ارکان کو یہ گلہ ضرور ہے کہ اسحاق ڈار ان کے بہت سے کام جو کہ بالکل جائز نہیں ہوتے نہیں کرتے اور یہی وجہ وزیر خزانہ کے خلاف ان کے گلے شکوئوں کی ہے۔ وہ دو درجن سے زائد مختلف کمیٹیوں کے سربراہ ہیں جو کہ یقیناً اچھی گورننس کی مثال نہیں ہے۔ کچھ وزراء یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں بھی ان ہائی پروفائل امور میں اہم رول دیا جائے۔ چاہے انتخابی اصلاحات ہوں یا متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے بات چیت اسحاق ڈار ہی ان امور کو ہینڈل کرتے ہیں۔
اب آتے ہیں ان کے خلاف ’’واٹس ایپ گروپ‘‘ کے غیض وغضب کی اصل وجوہات کی طرف۔ ہو سکتا ہے کہ جس احسن طریقے سے وزیر خزانہ نے ایم کیو ایم کے ساتھ تنازع کو ختم کیا اور اسے واپس سینیٹ اور اسمبلیوں میں لے آئے کو ناپسند کیا گیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ اسحاق ڈار وزیراعظم کے قریبی رشتے دار ہیں ، حکومت کے مشکل ترین مسائل کو بڑی تندی و تیزی سے حل کرتے ہیں، ہمیشہ صلح کی بات کرتے ہیں اور متنازع امور سے دور رہتے ہیں، اقتصادی مسائل کو حل کر رہے ہیں، بلاوجہ کسی کا ایسا فیور کرنے کو تیار نہیں ہیں جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچے ،یہ بھی اچھا نہ لگا ہو۔ ان کے خلاف کمپین کا مقصد ان کو یقیناً نقصان پہنچانا ہے مگر اصل ٹارگٹ تو وزیراعظم ہیں کیونکہ اگر اسحاق ڈار کے کردار کو مشکوک بنا دیا جائے تو اصل نقصان تو نوازشریف کا ہوگا جس سے ان کی حکومت کی ساکھ متاثر ہوگی۔ لہٰذا ’’واٹس ایپ گروپ‘‘ کا اصل نشانہ جمہوری نظام ہے۔ تکلیف دہ بات ہے کہ جو وزیر موجودہ کابینہ میں سب سے اچھا کام کر رہا ہے اس کے خلاف اس طرح کی گندی مہم چلائی جائے۔ وزیر خزانہ کی دیانتداری اور پروفیشنل ازم کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ جب 2008ء میں پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی تو آصف زرداری نے اس بات پر اصرار کیا کہ اسحاق ڈار ان کے وزیر خزانہ بنیں کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے پاس کوئی فرد بھی اتنا اہل نہیں ہے جو کہ وزارت خزانہ کو ان مشکل اقتصادی حالات میں چلا سکے۔ اس سے قبل جب پرویزمشرف کی حکومت نے ایک لمبے عرصے تک اسحاق ڈار کو قید کئے رکھا تو بالآخر اس وقت کے نیب کے چیئرمین نے خود اسحاق ڈار سے دوران قید ہی معذرت تھی کہ ان کے خلاف کرپشن کا ایک الزام بھی صحیح ثابت نہیں ہوسکا جبکہ انہوں نے وزارت خزانہ کی تمام فائلوں کو کھنگال لیا ہے ۔ اس وقت تو اسحاق ڈار نوازشریف کے سمدھی نہیں تھے گو کہ وہ ان کے قریب ترین راز دان تھے۔ ان پر جو بھی منی لانڈرنگ کا الزام لگا تھا ان کو مختلف عدالتوں بشمول لاہور ہائی کورٹ نے کوڑے دان کی نظر کردیا تھا۔ مگر ہماری سیاست اتنی پست ہو چکی ہے کہ ہم بار بار ان الزامات کو ہی بغیر شرم محسوس کئے ، دہراتے رہتے ہیں ۔ مگر پھر بھی وزیر خزانہ کے خلاف ’’واٹس ایپ گروپ‘‘ کی ناراضی اپنی جگہ پر ہے۔ اسحاق ڈار کے ساتھ ساتھ وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کو بھی ٹارگٹ کیا جاتا ہے کہ اب ’’بے رحم احتساب‘‘پنجاب تک بڑھایا جائے گا جس میں رانا ثناء اللہ پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔یہ لوگ کیسا احتساب چاہتے ہیں کہ چار افراد سندھ سے گرفتار کریں اور اس کو بیلنس کرنے کیلئے چار پنجاب سے بھی پکڑ لیں یہ انتہائی بھونڈی بات ہے۔ سب کے سامنے ہے کہ سندھ میں تاریخی لوٹ مار ہوئی ہے اور یہ سلسلہ پچھلے 8 سال کے دوران بڑے عروج پر رہا اس کے مقابلے میں اس عرصے میں دوسرے تمام صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں صورتحال اگر مثالی نہیں تو بہت ہی بہتر رہی ہے۔ ایک بھی میگا کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا جس میں وزیراعلیٰ یا ان کی کابینہ کے کسی وزیر پر کوئی سنگین الزام لگا ہو۔الزام لگتا ہے کہ لاہور اور راولپنڈی کی میٹرو بس پروجیکٹس میں اربوں روپے ہڑپ کر لئے گئے مگر ایک بھی ثبوت سامنے نہیں لایاگیا انہوں نے کسی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا کہ یہ الزام ثابت کریں۔ اگرچہ رانا ثناء اللہ کی پوزیشن حکومت اور حکمراں جماعت میں وہ نہیں ہے جو کہ اسحاق ڈار کی ہے مگر وہ بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے بہت ہی قریبی معتمد ہیں اور صوبے میں ہر مشکل کام ان کے ذمے ہی لگایا جاتا ہے۔ رانا ثناء اللہ بہت دلیر اور جرات مند ہیں اوردو ٹوک بات کرتے ہیں۔ چاہے پنجاب میں کوئی ضمنی الیکشن ہو یا کچھ روز پہلے جہلم میں ہونے والاہولناک واقعہ جس میں مذہبی بنیاد پر ایک فیکٹری اور کچھ گھروں کو جلا دیا گیا شہبازشریف وزیر قانون کو ہی بھیجتے ہیں کہ وہ اصل صورتحال معلوم کریں تاکہ مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔ جس طرح اسحاق ڈار کو نشانہ بنا کے دراصل وزیراعظم کو ٹارگٹ کرنا ہے مقصد ہے، اسی طرح رانا ثناء اللہ کے خلاف کمپین کا مقصد بھی وزیراعلیٰ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے۔ وزیراعظم اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور شاید انہی کے پیش نظر ہی وہ گزشتہ دنوں کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں مزید دو سال کام کرنے دیا گیا تو ملک سے اندھیرے ختم کر دیں گے ، وافر بجلی پیدا ہو جائے گی اور بہت سے ترقیاتی منصوبے جو انہوں نے شروع کئے ہیں مکمل ہو جائیں گے جس سے عام آدمی کی زندگی میں خاطر خواہ فرق پڑے گا۔ کسی نے ایک ٹوئٹ میں طنزاً لکھا کہ بعض لوگوں کے نزدیک اصل مسئلہ تو نوازشریف کی گورننس ہی ہے یعنی کہ اگر وہ اپنی آئینی معیاد پوری کر گئے تو ان کی کارکردگی کی وجہ سے ان کے بہت سے ناقدین کو جان کے لالے پڑ جائیں گے۔
تازہ ترین