لاہور (ایم کے آر ایم ایس رپورٹ) ملک میں جاری ترقیاتی منصوبے سی پیک کی اہمیت ایٹمی پروگرام سے کم نہیں۔ ایٹمی پروگرام کی طرح اس منصوبے پر بھی سیاست نہ کی جائے۔ سی پیک سے ملکی معیشت ناقابل تسخیر ہو گی۔ ملک میں جاری منصوبوں کو مکمل کر لیا جائے تو معیشت مضبوط ہو گی، اندرونی استحکام مضبوط ہوگا۔ 21 ویں صدی میں پاکستان بہت مضبوطی سے ابھرے گا۔ آنے والے دنوں میں گوادر اور خنجراب پل کے طور پر کام کرے گا۔ سی پیک کو چین کا منصوبہ سمجھنا بالکل غلط ہے جس میں46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی جنگ گروپ آف نیوز پیپرز اور پنجاب یونیورسٹی کے زیراہتمام ہونے والے سیمینار’’ سی پیک مواقع، ترجیحات، مسائل، چیلنجز‘‘ میں کیا۔ سیمینار کی صدارت پروفیسر احسن اقبال (وفاقی وزیر منصوبہ بندی) نے کی، مہمان خصوصی ڈاکٹر مجاہد کامران (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی) تھے۔ مہمانوں میں سینئر صحافی منو بھائی، سہیل وڑائچ اور طیبہ ضیاء چیمہ، عبدالباسط خان، عرفان قیصر شیخ شامل تھے۔ سیمینار میں حرف آغاز پروفیسر ڈاکٹر حافظ ظفر احمد نے پیش کیا۔ میزبان واصف ناگی چیئرمین میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی تھے۔ سیمینار میں تلاوت قرآن پاک قاری بابر حسین نے پیش کی جبکہ نعت رسول مقبول ؐ حافظ مرغوب احمد ہمدانی نے پیش کی۔ پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ تین سال پہلے اور اب کے گوادر کا موازنہ کیا جائے تو حالات اب کافی بہتر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب1999 میں حکومت کو برطرف کیا گیا تو اس کے بعد ملک بجلی کے بحران سے دوچار ہو گیا تھا اور 2013 تک اس پر کسی نے توجہ نہیں دی لیکن اب توانائی بحران کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے، اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو توانائی بحران پر قابو پانا ہے۔ بحران پر قابو نہ پایا گیا تو کارخانے بند ہو جائیں گے اور زراعت بھی متاثر ہو گی اور معیشت کا پہیہ رک جائے گا۔ سی پیک ایک اہم منصوبہ ہے اب کوئلے کے ذریعے پانچ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ امپورٹڈ کوئلے کے منصوبےبھی پاکستان میں شروع کیے جارہے ہیں۔ گوادر سے کوئٹہ کے درمیان تقریباً ساڑھے چھ سو کلو میٹر کا راستہ صحیح نہیں تھا لیکن نومبر میں یہ سڑک مکمل کر لی گئی ہے۔ اب جو دو دن کا سفر تھا وہ صرف آٹھ گھنٹے کا ہو چکا ہے، ملک میں GPP بھی بڑھےگی۔ہم جنگی جنون کی تو باتیں کرتے ہیں لیکن ہمیں ترقی کے جنون کی ضرورت ہے ۔ سی پیک کی افادیت بھی کسی ایٹمی پروگرام سے کم نہیں ہے۔ ہمیں مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چین نے یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان تجارت کا بہترین مرکز ہے کیونکہ چین نے پاکستان میں اس وقت تجارت شروع کی جب کوئی بھی ملک یہاں پر سرمایہ لگانے کے لیے تیار نہیں تھا۔عبدالباسط نے کہا کہ سی پیک منصوبے کو ایک خواب سے حقیقت کی شکل دینا بہت بڑی کامیابی ہے۔ گوادر پورٹ سے پہلا کارگو شپ کامیابی سے روانہ کر کے دونوں ممالک نے معاشی تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے جو آنے والے وقت میں پاکستان کی معاشی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ ابھی تک زیادہ فوکس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر کیا گیا ہے جس کے تحت سڑکیں، ریل نیٹ ورک، پورٹ ڈویلپمنٹ اور توانائی کے منصوبوں کی تکمیل کی جا رہی ہے۔ اس راہداری کے دونوںاطراف مختلف مقامات پر سپیشل اکنامک زونز کا قیام عمل میں لایا جائیگا جس سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہونگے۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم One belt One roadکا حصہ بن چکے ہیں جس کے تحت کم وبیش40ممالک آپس میں تجارتی تعلقات نہ صرف استوار بلکہ مضبوط کر سکیں گے۔ اس باہمی تجارت کاحجم آئندہ دہائی میں تقریباً2.5بلین ڈالر تک تجاوز کر جائیگا۔ اس پروجیکٹ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ایران، روسن اور دیگر ممالک سی پیک کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیےاور جب حکومت پاکستان ان سے تجارتی سرمایہ کاری کے معاہدے کرے تو ایسی شرائط لازمی شامل کرے جس سے ہمارے نجی شعبہ اور معیشت دونوں کو براہ راست فائدہ ہو۔ منو بھائی نے کہاکہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں گوادربندرگاہ اور سی پیک جیسے منصوبے ہیں جس سے ملک اچھی خاصی سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ اگر ہمیں مزید آگے بڑھنا ہے تو ملک کی خواتین کو بھی شانہ بشانہ کام کرنا ہو گا۔ سہیل وڑائچ نے کہا کہ کسی بھی ریاست کی کامیابی کا انحصار اس کی حکمت علی، جغرافیہ او رتاریخ پر ہوتا ہے۔ اگر ان پہلوئوں کو مد نظر رکھا جائے تو ملک تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ عرفان قیصر شیخ نے کہا کہ پاک چائنہ اکنامک کو ریڈور ایک اہم موضوع ہے ۔یہاں پر مفت چائنز زبان سکھائی جاتی ہے۔ جب لوگوں نے اس میں دلچسپی لینا شروع کی تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں پانچ ہزار بچے دیں تو ہم ہر بچے کو 250 ڈالر دیں گے اور ہم نے بچوں کو کورسز کروائے اور ایک سال میں تقریباً چھ ہزار بچوں نے چائنہ کی زبان سیکھی۔ مجاہد کامران نے کہا کہ ہر کام کی راہ میں مشکلات تو آتی ہیں۔ ہمیں ان کو دور کرنا ہو گا۔ جس دن سی پیک کا منصوبہ مکمل ہو گا ۔ہمیں بہت زیادہ کامیابی ملے گی۔ اس کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستان کے طلبہ کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر پوری دنیا میں موازنہ کیا جائے تو سب سے زیادہ غلامی ہندوستان میں ہے۔ طیبہ ضیاء چیمہ نے کہا کہ اگر سی پیک کا منصوبہ مکمل نہ ہوا تو پھر اس کا بھی حال کالا باغ ڈیم جیسا ہی ہو گا۔ پاکستانی جو دوسرے ممالک میں روزگار کیلئے ہیں۔ ان کو بھی واپس آنا ہو گا۔ پروفیسر ڈاکٹر حافظ ظفر احمد نے کہا کہ سی پیک پر مکمل انویسٹمنٹ 51 بلین ڈالر کی ہے۔ جس میں 18 بلین ڈائر پاکستان کی طرف سے اور 33 بلین ڈالر چائنہ کی طرف سے لگایا جا رہا ہے۔ اس میں پاکستان کی 6.67,GDP فیصد اور چائنہ کی 31 فیصد ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم پر دو فیصد خرچ ہو رہا ہے جبکہ سی پیک پر 6.67 فیصد خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ 14پاور پروجیکٹ جو کہ 10400میگا واٹ کے ہیں۔ 2017ءمیں مکمل ہو جائیں گے جبکہ سات پروجیکٹ جو 6645 میگا واٹ کے ہیں۔ 2018ء کے بعد مکمل ہو جائیں گے لیکن ابھی ہمیں سیاسی عدم استحکام ، سلامتی کے خطرات، انتظامی مشینری کی کمی وغیرہ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ واصف ناگی نے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ بننے سے پاکستان کی معیشت پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ آنے والے چند برسوں میں پاکستان کے قرضوں کو اتارنے میں اور معیشت کو مضبوط کرنے میں گوادر پورٹ کا مرکزی کردار ہو گا۔ یہ بندرگاہ انتہائی گرے سمندر میں واقع ہے۔ جس کی وجہ سے انتہائی بڑے جہاز انتہائی آسانی کے ساتھ لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور فوجی آمریت نے اس بندرگاہ کو فنکشنل نہ کیا لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت نے صرف چند برسوں کی محنت سے اس کو فنکشنل کر دیا۔