• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عریاں تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے بلیک میلنگ کےجرائم میں اضافہ

لندن (سعید نیازی)سوشل میڈیا کے ذریعے دوست بن کر آن لائن رابطے کے دوران جنسی حرکات کرواکر انہیں ریکارڈ کرکے بلیک میل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ برطانیہ میں ہر سال ایسے ہزاروں واقعات پیش آرہے ہیں۔ نیشنل کرائم ایجنسی اور نیشنل پولیس چیفس کونسل نے اس بلیک میلنگ کے خلاف مہم کا آغاز کیا ہے۔ نیشنل کرائم ایجنسی کے اینٹی کڈنیپ اینڈ ایکسٹورشن یونٹ کے رائے سنسلر اور نیشنل پولیس چیفس کونسل کے ایڈالٹ سیکسوئل آفنسز کے سربراہ سسٹنٹ کمشنر مارٹن ہیوٹ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رواں برس ویب کیم کے ذریعے عریاں تصاویر بناکر لوگوں کو بلیک کرنے کے864واقعات پیش آئے، جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد385تھی۔ انہوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ بلیک میل ہونے والوں کی اصل تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلیک میل ہونے والوں میں14سے82برس کے لوگ شامل ہیں اور متاثرہ افراد میں95فیصد مرد ہیں۔ نیشنل کرائم ایجنسی کے رائے سنسلر نے کہا کہ جب کسی شخص کو اس کی عریاں تصاویر، ویڈیو دکھاکر خوفزدہ کرکے رقم طلب کی جاتی ہے تو اکثر لوگ ڈر کر رقم ان کے حوالے کردیتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد لوگوں کا ردعمل دیکھ کر اپنے مطالبات بڑھاتے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مہم کا مقصد یہ ہے کہ متاثرہ افراد یا وہ افراد جو متاثر ہوسکتے ہیں انہیں اس بات کا علم ہو کہ اگر انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی جائے تو انہیں کیا کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ جرائم کی یہ لہر نئی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے این سی اے، پولیس اور ہوم آفس کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اب بلیک میل کرنے کے الزام میں40افراد کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عموماً بلیک میل کرنے والے50سے500پونڈ تک کی رقم طلب کرتے ہیں۔ سسٹنٹ کمشنر مارٹن ہیوٹ نے کہا کہ بلیک میلنگ کا نشانہ بننے والوں کو مالی نقصان تو پہنچتا ہی ہے لیکن وہ خود کو بے بس اور بہت دبائو میں محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلیک میلر جن افراد سے رابطہ کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ گھبرائیں نہیں اور نہ رقم ادا کریں، بلکہ فوری طور پر پولیس سے رابطہ کریں۔ لوگوں کی سیفٹی اور ویلفیئر ہماری اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے منظم گروہ اس میں ملوث ہیں جوکہ فلپائن، آئیوری کوسٹ اور مراکش میں بیٹھ کر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ہر شکایت کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور تمام باتیں صیغہ راز میں رکھی جاتی ہیں اور لوگوں کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جن افراد سے رقم طلب کی جاتی ہے وہ ہرگز رقم ادا نہ کریں، کیونکہ بعض کیسوں میں رقم کی ادائیگی کے باوجود ویڈیوز کو پوسٹ کردیا گیا۔ جرائم پیشہ افراد سے بات نہ کریں اور تمام گزشتہ باتوں کا سکرین شارٹ لے کر محفوظ کرلیں۔ فیس بک اکائونٹ کو ڈیلیٹ کرنے کی بجائے معطل کردیں، تاکہ پولیس تحقیقات کرسکے۔ اسکائپ اور یوٹیوب پر اس بلیک میلنگ کے بارے میں شکایت درج کرائیں۔
تازہ ترین