• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقامی حکومتوں کی پانچ انتہائی بنیادی ذمہ داریاں

عدلیہ اور میڈیا کے ذریعے چند باشعور شہریوں نے اپنی (عوامی) سطح پر ’’مقامی حکومتوں‘‘ کے قیام کا غصب شدہ آئینی حق بالآخر بحال کرا لیا۔ ملک بھر میں گلی گائوں، محلے قصبے اور شہروں کی سطح پر روزمرہ کے عوامی امور چلانے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے منتخب نمائندگی پر مشتمل مقامی حکومتوں کے قیام کا آخری مرحلہ جاری ہے، جس کے نتیجے میں آئین پاکستان کا ایک بنیادی تقاضا پورا ہوتے ہوئے ’’مقامی حکومتوں‘‘ کا نظام تشکیل پائے گا ۔ 1973ء سے لے کر اب تک ہماری سیاسی جمہوری حکومتوں نے بڑی مکاری سے عوامی سطح پر عوامی نمائندگی کے اس حق کو دبائے رکھا بلکہ آئین میں مجوزہ اس نظام کو بڑی ڈھٹائی سے خلاف آئین صوبائی حکومتوں اور صوبائی نمائندگی کے ڈھانچے میں ضم ہی کردیا۔گویا عوام کا کام فقط ووٹ دینا رہ گیا۔ ان کو روزمرہ کی بنیاد ی سہولتوں کی فراہمی، ان کے معیار میں مسلسل بہتری اور وسعت کا نظام سول منتخب حکومتوں نے قائم ہی نہیں ہونے دیا۔ واضح طور پر عوامی سطح کے ترقیاتی اخراجات کا چینل قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان حتیٰ کہ سینیٹروں کو بنا دیا گیا۔ جن میں بلدیاتی سطح کے ترقیاتی اخراجات بندر بانٹ کی طرز پر تقسیم کر دیئے جاتے۔ جو اپنے اپنے علاقے میں ایک دو پارک چند گلیوں پر اپنے نام کی تختی لگا کر سرخرو ہونے کا تاثر قائم کرنے کی کوششیں کرتے کہ وہ عوام کے خادم ہیں۔ ترجیح یہ ہوتی کہ جو انہیں ترقیاتی اخراجات دیئے گئے ہیں اس میں سے زیادہ سے زیادہ بچا کر ہڑپ کر جائیں، سو متذکرہ سطح کے نمائندے کبھی بھی عوام کو لوپروفائل ترقیاتی سرگرمیوں میں بھی شریک نہ کرتے۔ یوں کرپشن کلچر بھی خوب پھیلا۔
یوں عشروں سے عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا کوئی مستقل نظر آنے والا عوام کی نمائندگی سے تشکیل پایا گیا اور عوام کی شرکت سے دائرہ انتخاب میں ترقیاتی عمل شروع کرنے والا نظام (بمطابق آئین مقامی حکومتوں کا قیام) قائم ہی نہیں کیا گیا۔ سیاسی حکومتیں ہمیشہ اس سے نالاں رہیں وہ اس کا نام تک نہ لیتیں۔اذیت ناک پہلو اس عوام دشمن جمہوریت کا یہ رہا کہ صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی سطح پر جو نمائندے منتخب ہوتےرہے۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کےاپنے آئینی فریضے (قانون سازی) جس کے لئے انہیں عوام نے منتخب کیا، کی کارکردگی صفر ہی رہی اور ہے۔ ہر نیم جمہوری اور ڈکٹیٹر فوجی دور میں انہوں نے آئین کی بحالی اور پارلیمان کی بالادستی کا راگ تو خوب الاپا، لیکن انہیں کبھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ سہواً بھی اپنے سیاسی ابلاغ میں مقامی حکومتوں کے قیام پر کوئی بات کرلیں۔
ذرا سوچئے! کہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ملک میں پرائمری کی سطح پر قوم کو خواندہ اورتعلیم یافتہ بنانے کے لئے ایک منظم اور نتیجہ خیز پرائمری اسکولنگ کا جو نظام موجود تھا، وہ برباد ہو گیا۔ دیہات میں صحت کی بنیادی سہولتوں کے مراکز کا جو نیم دلانہ حکومتی اقدا م لیا گیا وہ چند ہی سالوں میں تلپٹ ہو کر مایوس کن حالت میں چلتا رہا، اب یہ تقریباً ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ اور اب زیادہ تر خصوصاً سندھ میں تو یہ چھوٹے چھوٹے کھنڈرات اورغیرحاضر عملے کی تنخواہوں کی ادائیگی تک ہی محدود رہ گیا ہے۔ باوجود اس کے کہ ملک میں میڈیکل کالجز اور اس سے تیار ہونے والے نوجوان ڈاکٹروں کی بھرمار ہے۔ مشرف دور میں ’’انتظامی اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم‘‘ کی انتہائی درست اور بمطابق آئین جو بلدیاتی نظام منتخب ڈسٹرکٹ اورسٹی گورنمنٹس کی شکل میں قائم ہوا وہ بلاشبہ آئین میں بیان کئے گئے بلدیاتی نظام کے قریب تر تھا، جس میں جرائم کے خلاف پولیس کے آپریشن اور تفتیش کے شعبوں کو الگ الگ کرکے اس میں بڑی بہتری لائی گئی۔ آج پولیس کا نظام تقریباً ختم ہوچکا ہے، پولیس فورس حکمرانوں کی سیکورٹی اور ان کی شان بان ٹھان کو عوام سے تسلیم کرانے کےلئے وقف کردی گئی ہے۔ اور عوام اور بازاروں میں تاجروں اور مالدار صنعتکاروں نے اپنی اقتصادی سرگرمیوں کوپرامن فضا میں جاری رکھنے کے لئے پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسیوں کی خدمات قیمتاً حاصل کرلی ہیں۔ اسی طرح شہروں کے گلی محلوں اورگائوں دیہات میں سینی ٹیشن (بنیادی صفائی ستھرائی، گاربیج ڈسپوزل اورنکاسی آب کا نظام یا تو ہے ہی نہیں کیونکہ اس سطح پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا کمیونٹی سسٹم ہی ختم ہو گیا ہے، سو یہ کام ٹھیکوں پر دے دیاگیا ہے حتیٰ کہ لاہور جیسے شہر میں یہ بنیادی نظام ترکی کی کمپنی کے حوالے کردیا گیا ہے کہ ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنے شہر کا کوڑا ٹھکانے لگانے کا کوئی نظام ازخودقائم کرسکیں۔ فوجی ادوار یا ان کے اور سول حکومتوں کے اشتراک سے جو نیم جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں انہوں نے بلدیاتی انتخابات کے بعد جو بلدیاتی ادارے قائم کئے ان میں خاندانی اور کمیونٹی کی سطح کے تنازعات کے لئے کونسلر کی مصالحتی عدالتوں کی موجودگی میں پریشان عوام پولیس کے ہتھے چڑھنے سے بھی بچ جاتے تھے اور تھانہ کچہریوں کے عذاب سے بچے رہتے۔ اب یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے اور اس حوالے سے تھانہ کچہری کلچر عوام کے درپے ہے اور صوبائی اور قومی اسمبلی کے منتخب حکومتی نمائندوں کی عوام دشمن طاقت کا مظہر ہے۔
ملک بھر میں جاری بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی مقامی حکومتوں کے منتخب منتظمین اس تلخ حقیقت کو پلے باندھ لیں کہ انہیں ان کے دائرہ انتخاب کے ووٹروں(اٹینڈڈ بینی فشریز) کے اشتراک سے مقامی حکومتیں نہ تشکیل دینے دی جائیں گی نہ چلانے سو، وہ حکومتی جماعت کے ہیں یا کسی اور کے، انہیں یہ ارادہ ہر حالت میں باندھ لینا چاہئے کہ وہ خود مختار عوام کی حقیقی خادم اور مالی و انتظامی طور پر بااختیار مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں گے۔ سندھ اور پنجاب میں اس امر کا شدید خطرہ ہے کہ انہیں صوبائی ڈھانچے اور صوبائی سیاست کی چھتری میں لاکر اپنا تابع و محمل بنانے کی ممکنہ مزاحمت کی جائے گی۔ اصل میں ملک بھر کی مقامی حکومتوں کے نمائندے بلاامتیاز سیاسی جماعت بذات خود ایک ملک گیر جماعت ہیں، خواہ وہ کسی نشان پر بھی انتخاب لڑےہوں۔ ان کی وفا پارٹی نہیں صرف اور صرف عوام سے ہونی چاہئے اور اس کیلئے انہیں نے باہمی ا شتراک و اتحاد سے قانون سازی کرانی ہے۔ خصوصاً درج ذیل پانچ شعبوں میں عوام کو ساتھ لے کر چلنے اور ان کی حقیقی خدمت کے لئے۔
1۔پرائمری تعلیمی نظام کو بحال کرنے لئے ایک معیاری اورہر ایک کے لئے قابل دسترس نظام کے قیام کے لئے جو شرح خواندگی میں اضافے اور لازمی پرائمری تعلیم کی تکمیل کے ہدف پورے کرے۔
2۔صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے کوالیفائڈ ڈاکٹر اور فوری ریلیف(علاج)کی سہولت کی فراہمی محلے اور گائوں(کمیونٹی) کی سطح پر لازم ہو۔
3۔گھریلو جھگڑے اور مقامی تنازعات کو تھانے کچہری سے پہلے کونسلروں کی سماجی مصالحتی عدالتوں میں نپٹانے کا نظام اور زیادہ بااعتماد بنانے کی ضرورت ہے جس میں علاقے کے بزرگوں اور اچھی شہرت کے سمجھدارکمیونٹی ممبر کے اشتراک کو قانوناً ممکن بنایا جائے۔
-4کمیونٹی خود اور کچھ حکومتی معاونت سے اپنی اپنی کمیونٹی کا ایک انفراسٹرکچراز خود ڈویلپ کرے کہ کم از کم گلیاں اورنالیاں پختہ اور کورڈ ہوں اور نکاسی آب میں روانی ہو۔ یہ کام سستے داموں نوجوانوں کے زیادہ سےزیادہ اشتراک سے ہوسکتا ہے (خصوصاً دیہات اور کچی آبادیوں میں)
-5کمیونٹی کی فضا کو محبت بخش بنانے کے لئے مقامی حکومتیں شجرکاری جیسا سستا کارخیر لیکن مسلسل اور محفوظ نظام وضع کریں جو ان کی اپنی نگرانی میں کام کرے۔
تازہ ترین