• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آڈیٹر جنرل کی سالانہ رپورٹ، اربوں کی کرپشن کا انکشاف، 98 ارب کی ریکوری

اسلام آباد  (انصار عباسی) آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنے سالانہ رپورٹ برائے 2016؁ء میں مختلف وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے محکموں میں اربوں روپے مالیت کے فراڈ، خرد برد، چوری اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کی نشاندہی کی ہے اور ساتھ ہی بے ضابطہ اخراجات کے 98؍ ارب روپے کی ریکوری بھی کی ہے۔ گزشتہ ماہ جاری کردہ رپورٹ میں مالی سال 2015-16ء کا احاطہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ رواں سال 98.35؍ ارب روپے کی ریکوری کی گئی ہے جبکہ گزشتہ مالی سال 2014-15ء میں 40؍ ارب روپے کی ریکوری کی گئی تھی۔ سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے کیے جانے والے بے ضابطہ اخراجات کی مد میں یہ ریکوری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں حکومت کے صرف ٹیکسیشن کی مد میں فراڈ کی وجہ سے  20؍ ارب روپے کے نقصانات کا ذکر کیا گیا ہے، 4؍ ارب روپے آمدنی کی بندش کی وجہ سے، طے شدہ آمدنی کے 8؍ ارب روپے کی ریکوری نہ ہونے، چھوٹ کی مد میں 1.9؍ ارب روپے کے نقصانات، سیلز ٹیکس کی نان ریئلازیشن کی وجہ سے 5.7؍ ارب روپے، ان پٹ ٹیکس کے ناقابل قبول ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے 2.8؍ ارب روپے، ایکسپورٹ یونٹس کی حدود کے غیر قانونی استعمال کی وجہ سے 1.6؍ ارب روپے، ریونیو رسیدوں اور آئی سی ٹی کے نان شارٹ ریئلازیشن کی مد میں 1.9؍ ارب روپے کے نقصانات ہوئے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں ریلویز کی 4147.85 ایکڑ زمین ہے جو پاکستان ریلویز کے نام پر منتقل نہیں کی گئی؛ کنونشن سینٹر اسلام آباد کے قریب فائیو اسٹار ہوٹل کا کمرشل پلاٹ سی ڈی اے نے کم قیمت پر فروخت کر دیا جس سے 7492.78؍ ملین روپے کا نقصان ہوا، بی آئی ایس پی کے 74396 کھاتہ داروں کے 2.2؍ ارب روپے دو سال تک نہیں نکلوائے گئے جو سرکاری خزانے میں جمع ہونا چاہئے تھے۔ بی آئی ایس پی انتظامیہ نے اپنے ہی وضع کردہ ادائیگی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ وزارت پورٹس اینڈ شپنگ نے کنٹریکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹریکٹ کا عرصہ مکمل ہونے کے بعد ٹھیکہ داروں کو تاخیری جرمانے عائد کیے بغیر انہیں 4.6؍ ارب روپے ادا کر دیئے۔ کے پی ٹی کو 45؍ سرکاری اداروں اور ایجنسیوں سے 1.2؍ ارب روپے کی واجبات وصول کرنا ہیں۔ 84.09؍ فیصد بقایا جات صرف واپڈا کی ہیں جبکہ باقی کا تعلق دیگر 44؍ محکموں اور ایجنسیوں سے ہے۔ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے میسرز جیرز کو ویزا درخواستوں کی پراسیسنگ کیلئے 143.594؍ ملین روپے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ آڈٹ کے مقاصد کیلئے ہائی کمیشن ٹینڈر جاری کرنے کے عمل، ٹھیکے کی نقل اور انٹیگریٹی پیکٹ کی نقول فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ پی پی آر اے قوانین پر عمل کیے بغیر ٹھیکہ دینا غیر قانونی ہے۔ بیرون ملک پاکستان کے چار سفارتی مشنز کی جانب سے خالی عمارتوں کا 22.742؍ ملین روپے کرایہ ادا کیا جس سے حکومت کو نقصان ہوا۔ یہ معاملہ ذمہ دار افراد کے تعین کیلئے ابھی تک زیر التوا ہے تاکہ بوقت متعلقہ افراد سے ریکوری کی جا سکے۔ اے آر آر اے اپنے سالانہ مالیاتی گوشواروں میں اختتامی باقی (کلوزنگ بیلنس) سے آگاہ نہیں کیا جو ایرا کے مالیاتی قواعد کی خلاف ورزی ہے۔ مزید برآں، پیرا اور سیرا کے ثانوی کھاتوں میں موجود 292.312؍ ملین روپے، جن کے استعمال کی معیاد ختم ہو چکی تھی، ایران فنڈ میں جمع نہیں کرائے گئے۔ تعمیراتی کام کی تکمیل کے بعد، ایرا کے 34.299؍ ملین روپے کے اثاثہ جات این ایچ اے کی جانب سے ایرا کو واپس نہیں کیے گئے۔ این ایچ اے کی جانب سے ایرا کے اثاثہ جات غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنے کی وجہ سے ایرا کو 34.299؍ ملین روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔ فرضی پیمائش کی مد میں ایرا نے ٹھیکے دار کو 127.5؍ ملین روپے ادا کیے جس کی تحقیقات ہونا چاہئے تاکہ ذمہ دار کا تعین کرکے متعلقہ افراد سے غیر قانونی ادائیگی کی ریکوری کی جا سکے۔ باغ سٹی ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے پروجیکٹ یونٹ (بی سی ڈی پی) نے 2012-13 اور 2014-15ء میں ٹھیکے داروں کے انکم ٹیکس کی مد میں 278.6؍ ملین روپے منہا کیے لیکن منہا کردہ رقم سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائی گئی جس سے حکومت کو نقصان اٹھانا پڑا۔ وزارت خزانہ نے ریگولر انکم سرٹیفکیٹس، پنشن بینیفٹ اکائونٹس  پر زکوات کی مد میں 65؍ ارب روپے کی چھوٹ دی۔ یہ اقدام مشکوک اور بلا جواز تھا۔ بحریہ کے 4؍ یونٹس میں، اے ون کیٹگری کی زمین کمرشل مقاصد کیلئے دیدی گئی جس سے حاصل ہونے والا ریونیو 468.9؍ ملین روپے تھا جو سرکاری خزانے کی بجائے دکان کے کھاتے میں جمع کرایا گیا۔ کوئٹہ ایم ای او میں زمین حاصل کرنے کیلئے تین ارب روپے رکھے گئے۔ ایکوئنٹنس رول فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے زمین کے مالک کو اس رقم کی ادائیگی کی تصدیق نہیں ہو سکی لہٰذا اس ضمن میں کیے جانے والے اخراجات مشکوک ہیں۔ سی ایس ڈی سے ہورڈنگ کے اخراجات کی مد میں 13.3؍ ملین روپے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کنٹونمنٹ فنڈ کو نقصان اٹھانا پڑا۔ دیگر معاملات میں بھی اسے 510؍ ملین روپے کا نقصان ہوا۔ سول ایوی ایشن کی انتظامیہ نے نئے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پروجیکٹ کے سلسلے میں ایف ڈبلیو او اور جے وی میسرز چائنا اسٹیٹ کنسٹرکشن انجینئرنگ کارپوریشن کو ورک پیکیج تھری کا 20.2؍ ارب روپے کا ٹھیکہ دیا۔ جے وی کا بڑا شراکت دار متعلقہ اسپیشلائزیشن میں رجسٹرڈ نہیں تھا جبکہ کام کی تکمیل کیلئے یہ رجسٹریشن لازمی تھی۔ پی ای سی کے قوانین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے بے ضابطہ اور غیر مجاز انداز سے ایک ایسی کمپنی / جے وی کو 20.2؍ ارب روپے کا ٹھیکہ دیا گیا جس کے پاس اسپیشلائزیشن نہیں تھی۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے 1.5؍ ارب روپے کی بینک گارنٹی جاری کی گئی جس میں معاملات حل کرنے، نقصانات کی ریکوری اور ذمہ دار شخص کیخلاف انضباطی کارروائی نہ کرنے کے حوالے سے ڈی اے سی کی ہدایت پر عمل نہیں کیا گیا۔ این ایچ اے کی جانب سے کنٹریکٹ کی شقوں کو بالائے طاق رکھ کر ٹھیکے دار کو اضافی موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں 1.5؍ ارب روپے ادا کیے گئے۔ اسلام آباد پشاور موٹر وے (ایم ون) کے ٹھیکے داروں کو دی جانے والی مشینری اور پلانٹ این اے کو کام کی تکمیل کے بعد واپس نہیں کیا گیا جبکہ کام کی تکمیل کے بعد 30؍ جون 2014ء تک واپس نہ کیے جانے والے سامان کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت اور اس کا کرایہ ٹھیکے داروں سے ریکور نہیں کیا گیا اور ریکور نہ کی جانے والی رقم 2؍ ارب روپے ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت کے باوجود، پاک پی ڈبلیو ڈی نے مندرا چکوال اور سہاوا چکوال روڈز کے حوالے سے میسرز این ایل سی کو ادا کردہ فنڈز صرف یہ کہتے ہوئے واپس نہیں لیے گئے کہ ٹھیکے دار نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپریل 2013ء میں مذکورہ فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر رکھی ہے جبکہ ریکارڈ میں انٹرا کورٹ اپیل کے سماعت کیلئے منظور ہونے اور اس کی تازہ ترین صورتحال کے متعلق کوئی معلومات موجود نہیں۔ مزید برآں، آجر آئی پی سی ون اور ٹو کے کام کیلئے 612.61؍ ملین روپے بھی ایڈجسٹ نہیں کر سکا جس کے باعث 2.3؍ ارب روپے کی بنیادی رقم وصول نہ کی جا سکی اور اس رقم پر 641.07؍ ملین روپے کا سود واجب ہوگیا جو سالانہ 10؍ فیصد کے نرخ پر تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبائی کھاتوں میں بہت بڑی بے ضابطگیوں اور خلاف ورزیاں پائی گئی ہیں۔ صوبوں کے معاملے میں واجبات کی مد میں مجموعی رقم 26.78؍ ارب روپے ہے جبکہ صرف 7.3؍ ارب روپے ہی ریکور ہو سکے ہیں۔ صوبائی آڈٹ ونگ نے مختلف معاملات میں مندرجہ ذیل نشاندہی کی ہے: ٹینڈرنگ کے عمل میں بے ضابطہ اخراجات سے 647 ملین روپے کا نقصان ہوا، مینوئل ذرائع سے غیر مجاز طریقہ اختیار کرتے ہوئے تنخواہوں کی مد میں 535؍ ملین روپے ادا کیے گئے، غیر مجاز انداز اور بے ضابطگی کرتے ہوئے 726؍ ملین روپے کا پلانٹ، مشینری اور دیگر آلات خریدے گئے، غیر مجاز طریقے سے 4.106؍ ارب روپے کا اسٹاک خریدا گیا، 3.947 ارب روپے کے وائوچر اکائونٹس اور ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا، عشر اور آبیانے کی مد میں کسانوں سے کم رقم وصول کرنے سے 212؍ ملین روپے کا نقصان ہوا، عملدرآمد ایجنسی نے پرفارمنس / ایڈیشنل پرفارمنس سیکورٹی حاصل نہیں کی جس سے 55 ارب کا نقصان ہوا، کام کاج کے سلسلے میں زمین کے حصول کیلئے لینڈ ایکوزیشن کلکٹر کو 535؍ ملین روپے جاری کیے گئے جن میں سے ادارے کے اپنے ہی افسران / ملازمین نے 241؍ ملین روپے کا غبن کیا، کسانوں اور کاشتکاروں کو ٹریکٹرز فروخت کرنے کی اسکیم میں سبسڈی کی رقم کا غلط استعمال کیا گیا جس سے 7.5 ملین روپے کا نقصان ہوا، سندھ میں اوقاف کے 16؍ یونٹس میں جوتے کے ٹھیکے داروں، پھولوں کے ٹھیکے داروں اور کار پارکنگ سے وصولی نہیں کی گئی جس سے 32.8؍ ملین روپے کا نقصان ہوا۔ ضلعی حکومتوں کے کھاتوں کے حوالے سے آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 4.8؍ ارب روپے کی ریکوری ہونا ہے جبکہ صرف 1.6؍ ارب روپے کی ریکوری کی گئی۔ ضلعی حکومت کے عہدیداروں نے آڈیٹرز کو ریکارڈ بھی فراہم نہیں کیا جس سے 2.3؍ ارب روپے کے اعتراضات سامنے آئے۔ آڈٹ کے عمل کے دوران ضلعی آڈٹ ونگ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات یہ ہیں: ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر آر آر جی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور ڈائریکٹر میونسپل کی جانب سے 50؍ ارب روپے کی بقایا جات وصول نہیں کی گئیں، کے ایم سی کراچی کے سینئر ڈائریکٹر لوکل ٹیکسز کی جانب سے 190؍ ارب روپے کی ایڈورٹائزنگ فیس کی وصولی کیلئے لیز ہولڈ رائٹس کی نیلامی نہیں کرائی گئی، ای ڈی او ایف اینڈ پی کی جانب سے ضلعی حکومت کی رسیدوں کے ایک ارب روپے مالیت کے اکائونٹس کی غیر مجاز مینٹیننس، ڈی او روڈز کی جانب سے ڈیزل اور بیٹومین کی قیمتوں میں 22؍ ملین روپے کے رد و بدل کے بعد کٹوتیاں نہ کرنا، ڈسٹرکٹ آفیسرز بلڈنگز اینڈ ڈسٹرکٹ آفیسر روڈز فیصل آباد کی جانب سے جاب مکس فارمولے کے بغیر ہی 178؍ ملین روپے کا کام شروع کرانا، پی پی آر اے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف ڈی ڈی اوز کی جانب سے 18.8؍ ملین روپے کے بے ضابطہ اخراجات، تکنیکی منظوری کے بغیر ہی کیے جانے والے 79؍ ملین روپے کے اخراجات، پیمائشی کتب کی مینٹی ننس کے بغیر ہی 116؍ ملین روپے کے اخراجات، لینڈ ایکوزیشن پی ڈی اے کو بینک سے منافع کی مد میں 94.529؍ ملین روپے ملے لیکن انہوں نے یہ رقم سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائی، سی سی او ڈسٹرکٹ کونسل بنّوں میونسپل کمیٹی سے 40؍ ارب روپے کی واجبات وصول کرنے میں ناکام رہے۔
تازہ ترین