• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لئے!
پاکستان کے اوپر سے بھارت افغانستان فضائی سروس کی تیاریاں، مودی اشرف غنی میں ملاقات، بین الاقوامی قوانین کی رو سے کسی بھی ملک کے اوپر سے طیاروں کا متعلقہ ملک کی اجازت کے بغیر گزرنا ممنوع ہے، اور اسے فضائی حدود کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے، اس لئے پاکستان ایئر فورس اگر کسی بھارتی جہاز کو پاکستان میں داخل ہوتے وقت نشانہ بنائے یا اسے اتارے تو یہ پاکستان کا استحقاق ہے، بھارت افغانستان فضائی سروس براستہ پاکستان پر دونوں ملکوں میں کام شروع ہو چکا ہے، بھارت کی پاکستان دشمنی اور ہتک آمیز رویے کا یہ عالم ہے کہ اس نے پاکستان سے اس سلسلے میں باقاعدہ اجازت مانگنا تو کجا بات کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی، پاکستان ایک خود مختار ریاست ہے، اور بھارت کو معلوم ہونا چاہئے کہ افغانستان جو بھی کر رہا ہے اس کے اور ایک بڑی قوت کے اشارے و سرپرستی کے نتیجے میں کر رہا ہے، افغانستان کی یہ ڈمی حکومت سدا نہیں رہنی، ایک روز وہاں کے اصل عوامی نمائندے حکمران ہوں گے، اور دو برادر اسلامی ملکوں میں پھر سے وہی تعلقات ہوں گے جو امریکی یلغار اور بھارتی گھس بیٹھنے سے قبل تھے، پاکستان بھی یہ اعلان کر دے کہ وہ بھارت کے اوپر سے چین کے لئے فضائی سروس کا آغاز کرنا چاہتا ہے، اور اس کے لئے تیاریاں شروع کر دی جائیں، بھارت کا اصل مقصد بھارت افغان تجارت نہیں بلکہ وہ پاکستان میں داخل ہونے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے، اگر مسئلہ کشمیر جیسا نازک مسئلہ متنازع موجود ہے، اور کنٹرول لائن پر سرد جنگ گولی کے ذریعے گرم کی جا رہی ہے، تو ایسے میں بھارتی طیاروں کا پاکستان میں داخل ہونا چہ معنی دارد؟ پاکستان اس بارے ابھی سے اپنا موقف سوچ لے، اور ایسی کسی فضائی سازش کو تجارت کی چھتری تلے کامیاب نہ ہونے دے، شاید بھارت یہ بھی چاہتا ہو کہ اس کا کوئی طیارہ پاکستان اپنی فضائی حدود کی بنا پر گرا دے تو وہ پاکستان پر جنگ مسلط کر دے، کوئی عالمی سازش ہے جس کے ڈانڈے کہاں کہاں جا کر ملتے ہیں اس کے لئے پاکستان اپنی تیاری کرے بھارت کا یہ نیا شوشہ ایک خطرناک پروگرام ہے۔
٭٭٭٭
اس نگوڑی ’’مَیں‘‘نے بھی کتنے لوگ بگاڑے ہیں !
2018ءکے الیکشن میں وزیراعظم میں ہی بنوں گا۔ بلاول زرداری بڑے شوق سے، کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے بلاول پیارے کے انتخابات لڑنے پر، مگر یہ کہنا کہ وزیراعظم ’’مَیں‘‘ ہی بنوں گا یہ ضرور محل نظر ہے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کسی کی ’’مَیں‘‘ کو نہیں، بلکہ میں ایک ایسا کلمہ ہے کہ اس کی کثرت انسان سے ناکام کسرت کراتا ہے اور ہاتھ میں فقط میں ہی رہ جاتی ہے، ممکن ہے بلاول نے نواز شریف کے بارے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہو اور وہ خوش ہو گئے ہوں کہ وہ تو راستے ہی میں منزل سے کچھ دور ہی فارغ التحصیل ہو جائیں گے، پھر ہم آگے بڑھیں گے اور وزارت عظمیٰ جو سامنے میز پر پلیٹ میں پڑی ہو گی اس کا ناشتہ شروع کر دیں گے، قبلہ والد صاحب اپنے شفقت آلود ہاتھوں سے توس پر مکھن لگا کر دیں گے، اور ن لیگ کا دور دور تک کوئی نشان نہ ہو گا، لیکن ہم ان کو نظر انداز ہرگز نہیں کریں گے، بلاول نے وزیراعظم کے منصب کو مینا سمجھا ہے کہ؎
جو بڑھ کر تھام لے مینا اسی کا ہے
موروثی سیاست میں یہ ہوتا ہے کہ نیا سجادہ نشین ’’مسائل تصوف‘‘ نہیں جانتا اور کہیں نہ کہیں ’’مَیں‘‘ ہی کے ہاتھوں مات ہو جاتی ہے، بُرا ہو اس میں کاکہ؎
اس نگوڑی میں نے بھی کتنے لوگ بگاڑے ہیں
بلاول زرداری اگرچہ اتنے بچے بھی نہیں، اب وہ جوانی کے کئی سال گزار چکے ہیں ان کے سیاسی اتالیقوں نے بھی ان کو کئی سبق پڑھا دیئے ہیں، لیکن نہ جانے کیوں ان میں بھٹو مرحوم جیسا سنجیدہ جوش و خروش پیدا نہیں ہو رہا۔ ہم ان سے یہی کہیں گے کہ نالہ ہے ترا خام ابھی!
٭٭٭٭
کرشمہ دامنِ دل میکشد
پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کہتے ہیں:پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کچھ بھی خالص نہیں ہوتا، آمریت تو ہوتی ہی ناخالص ہے، البتہ جمہوریت خالص ہوتی ہے مگر ناخالص بنا دی جاتی ہے، جیسے مذہب صلح و آشتی سکھاتا ہے مگر یار لوگ اسے بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، تو اس سے مذہب ناخالص نہیں ہو جاتا، اور نہ ہی جمہوریت ناخالص ہو سکتی ہے، بس نام اللہ کا لیا اور بھیک مانگ لی، لوگوں نے ترس کھا کر زمین پر بچھائے کپڑے پر ووٹ پھینک دیئے، جمہوریت بارے مصطفیٰ کمال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کچھ بھی خالص نہیں ہوتا، مصطفیٰ کمال ایک نیا روپ ہیں سیاست کا اور تلاش میں ہیں کہ کہیں سے انہیں خالص جمہوریت ملے تو اس کا پودا پاکستان میں لگا دیں، اگر وہ پارٹی کا نام پاک سرزمین شاد باد رکھ دیتے تو منشور کی بھی ضرورت نہ رہتی، وہ سو گناہ کر کے توبہ تائب ہو چکے ہیں، اس لئے اب بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستانی سیاست میں دیر آید درست آید کا مصداق بن چکے ہیں، انہوں نے بڑے حجاب اٹھائے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ابھی خود ان پر کئی پردے پڑے ہوئے ہیں، وہ جس انداز میں پریس کانفرنس کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے ’’کہ کرشمہ دامن دل میکشد کہ جا اینجا است‘‘کرشمہ دامن دل کو کھینچتا ہے کہ یہیں ہے۔
٭٭٭٭
اسٹیج گر گیا!
....Oعابد شیر دھواں دھار تقریر کر رہے تھے کہ اسٹیج گر گیا۔
یہ اچھا شگون ہے، اب انہیں کوئی نہیں گرا سکتا، ان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ چنیوٹ میں 132کے وی گرڈ اسٹیشن کا افتتاح کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔
....Oسعید غنی(پی پی):بلاول کی سیاست سے مخالفین بوکھلا گئے،
بوکھلاہٹ ماپنے کا وہ کونسا پیمانہ ہے جو صرف آپ کے پاس ہے؟
....Oشیخ رشید:بلاول کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ مثبت،
یہ کونسا انکشاف ہے انہیں زرداری نے لانچ ہی اسی کام کے لئے کیا ہے،
....Oجہانگیر ترین:نواز شریف کو کلین چٹ ملنا مشکل ہے،
خان صاحب کا وزیراعظم بننا بھی مشکل ہے،
....Oخورشید شاہ:نواز شریف ممکن ہے مئی جون میں انتخابات کا اعلان کر دیں،
مفاہمت کبھی کبھی کفن پھاڑ کے خبر دیتی ہے۔






.
تازہ ترین