ایک میٹنگ میں ایک نوجوان ماہر معیشت نے کہا ہے کہ پاکستان میں بہت منصوبے، بہت اچھے منصوبے بنتے ہیں مگر کوئی اس کا followup ، کوئی تجزیہ، کوئی ریویو نہیں کرتا۔ ہوتا کیا ہے کہ وہ منصوبہ کاغذوں میں شروع ہوتاہے اور کاغذوں ہی میں بند ہو کرفائل میں رہ جاتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان میں تمام پنج سالہ منصوبے، سارے چودہ نکاتی اور سات نکاتی پروگرام اپنی اپنی بے نام قبر میں چلے جاتے ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ ہر آنے والی حکومت، اپنے اپنے کارندوں یعنی ممبر قومی اورصوبائی اسمبلیوں کو یک مشت کروڑ، ڈیڑھ کروڑ روپے تقسیم کردیتی ہے۔ ان بیچاروں نے کوئی منصوبہ بھی نہیں بنایا ہوتا کہ ان کی جھولی بھرجاتی ہے۔ پھروہ اپنے چہیتوں ، کارندوں اور ورکروں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ کوئی بندہ پرندہ، کوئی افسر ماتحت حق نہیں رکھتا کہ یہ پوچھ سکے کہ جو رقم آپ کو ترقیاتی منصوبے بنانے کے لئے دی گئی تھی وہ کہاں اور کیسے خرچ ہوئی۔لے دے کے ایک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہے جو خبرملنے پر آپ کو جھاڑ پلا دیتی ہے، آپ کی مرضی ہے تواس کے سامنے پیش ہوں کہ نہ ہوں۔
اب جبکہ مقامی کونسلوں کا نظام بھی ہے صوبائی ممبرانِ اسمبلی کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران بھی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہرایک ممبر کو الگ الگ کم از کم ایک کروڑ روپیہ ملتا ہے تو پھر وہ خرچ بھی ہوتاہے۔ تو کسی بھی دیہاتی علاقے میں ترقی نظر کیوں نہیں آتی ہے۔ ہماری بہت سی این جی اوزنے دیہی علاقوں میں کمیونٹی آرگنائزیشن بھی بنائی ہوئی ہیں مگر دیہات کی شکل بدلی ہوئی کیوں نظر نہیں آتی ہے۔
کیاہوتا یوں نہیں ہے کہ ایک سڑک جو ممبر قومی اسمبلی کے چوبارے سے لے کر شہر کی سڑک سے ملانے والی بنتی ہے اسی پہ نام ان سب کا لکھا جاتا ہے جو اپنے اپنے طور پر گرانٹ لیتے ہیں ، خرچ کرتے ہیں اور سرخرو رہتے ہیں۔ اگر یوں نہ ہوتا تو ایوب خان کے زمانے میں جتنی سڑکیں بننے کے دعوے تھے، پاکستان میں کوئی کچی سڑک رہی ہی نہ ہوتی یہ وعدے صرف اس وقت تک نہیں رہے اس کے بعد جوبھی براجمان ہوتا رہا، کہتارہا، میں نے پاکستان کو خوشحال اور جنت بنا دیا ہے اور آخر 60 برس بعد پتہ چلاکہ غربت کی لکیر سے نیچے آنے والے بڑھے ہیں کم نہیں ہوئے ہیں۔
یہ سب کیوں ہوا کہ یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ہر کام میں مصروف لوگ سب ہی بے ایمان ہوتے ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ منصوبے بنتے اور ان پر اخراجات نہیں ہوتے ہیں ۔ کوئی بدلی ہولی شکل کیوں نظر نہیں آتی ہے اور یہ کیوں ہوتاہے کہ ہر عورت مرد کے ہاتھ میں ٹیلیفون تو آ جاتاہے، بچوں کے ہاتھ میں کھٹی میٹھی رنگ دار گولیاں آ جاتی ہیں، گھر میں کیبل آ جاتا ہے، دن رات ہندوستانی فلمیں اورڈرامے دیکھے جاتے ہیں مگر نہ تعلیمی اداروں کی حالت سدھرتی ہے نہ ہیلتھ یونٹ میں ڈاکٹر اور دوائیاں ہوتی ہیں۔ نہ گاؤں میں روڑیاں، مکھیاں اور گندے پانی کے جوہڑ کم ہوتے ہیں۔ لیٹرین نام کی کوئی چیز کسی گاؤں کے چودھری کے یہاں مل جاتی ہے ورنہ وہی پریم چند کے زمانے کے دیہات وہی ماحول بلکہ کئی جگہ تو اس سے بھی خراب ماحول نظر آتا ہے۔
پاکستان میں 42 بین الاقوامی فنڈنگ ادارے کام کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میں نے پولیو کاخاتمہ کر دیاہے، کچھ دنوں بعد پتہ چلتاہے کہ فلاں علاقے کے بچوں کو پولیو ہو گیااور اب فلاں علاقے کے بچوں کو پولیو ہو گیاہے۔کوئی کہتا ہے کہ ہم نے ملیریا کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اگلے دن نہ صرف ملیریا بلکہ ڈینگی ملیریاآ جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہم نے تپ دق کاخاتمہ کردیا۔ تربت جاتی ہوں تو تپ دق کے بے شمارمریضوں سے واسطہ پڑتاہے۔ کوئی کہتا ہے ہم نے صاف پانی مہیا کردیا۔ پتہ چلتا ہے کہ شہروں میں بھی صاف پانی نہیں کجا ڈیلو یا میٹھی میں کہ جہاں چونا ڈال کے کائی زدہ پانی صاف کرکے پیتے ہیں۔ تمام لوگوں کے دانتوں پر زنگ سا لگ جاتاہے۔ پانی ایساگدلااور کھارا ہوتا ہے کہ بال دھوؤ تو بجائے کھلنے کے جڑجاتے ہیں۔ یہ ہے کارکردگی ان 42 فنڈنگ ایجنسیز کی کہ جن کے ساتھ کام کرنے والے لوگ، لاکھوں میں تنخواہ اور شرح مشاورت 300ڈالر روزانہ سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ مجھے یہ سارے اخراجات منظر اگر کچھ تبدیلی کوئی شکل کوئی ترقیاتی منظرنامہ نظر آئے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ رمضان میں پورے وقت بجلی کہاں سے فراہم کردی گئی۔ رمضان ختم ہوتے ہی چھ چھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کیوں شروع کی گئی۔ عوام کو 40فیصد بجلی کے اضافی بل کیوں بھیجے گئے۔ جب مظاہرے ہوئے، بل جلائے گئے، تو پھر فوراً بلوں میں بھی کمی کردی گئی۔ بجلی بھی فراہم کردی گئی آخر یہ مذاق کیاہے!
گندم جو بازار میں پچھلی فصل پہ آئی تھی اس کوکہاگیاچھ سوروپے من کے حساب سے اور نئی فصل 900روپے من کے حساب سے خریدی جائے گی۔ لوگوں نے پچھلی فصل بھی تہہ خانوں میں چھپا کر رکھ دی۔ اب وہ گندم بھی 900روپے من کے حساب سے فروخت کی جائے گی۔ کس کویہ چالاکیاں نہیں معلوم ہیں۔ کس کو خبر نہیں کہ حوالہ طریقِ کار کب سے چل رہا ہے۔ جب وہ سارے ڈالر جاچکے۔ جب وہ سب جو اپنی رقومات غیرممالک بھجوانا چاہتے تھے وہ کامیابی سے اپنی چال چل چکے تو پھر ہوش آیا سٹیٹ بنک کو اور باقی سرکاری اداروں کو کہ منی چینجرز توروزانہ کا حساب معمول کے مطابق سٹیٹ بنک کو بھجواتے ہی ہیں۔ اگر یہ کام گزشتہ 9ماہ سے یا چارسال سے چل رہا تھا تو حکومت کی ایجنسیاں سوئی ہوئی تھیں۔ انہیں خبر تھی کہ تمام چینلز کو یوں ایک نیاموضوع مل جائے گا۔ بڑے کالم لکھے جائیں گے۔ ہر چینل کی تین کرسیوں پہ پھر وہی بولنے والے آ کے بیٹھ جائیں گے جو گزشتہ چار سال سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ آخر کوسب لوگ سرکاری غلام گردشوں میں گھومتے ہوئے 62وزیروں ، 62سیکرٹریوں اوردگنی گاڑیوں میں سفرکرتے رہیں گے۔
ہر پھرکر وہی موضوع آگیا جس سے لکھنا شروع کیا تھا یعنی کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ کسی منصوبے یا کسی کام کو مانیٹر کیاجائے۔ یہ یقین کیا جاسکے کہ جس منصوبے کے لئے جو رقم مختص ہوئی تھی وہ منصوبہ پایہ ٴ تکمیل تک پہنچا کہ نہیں۔ آپ کہیں گے کہ پاکستان میں کون سا پنج سالہ منصوبہ پا یہ ٴ تکمیل کوپہنچا۔ خود محبوب الحق انسٹیٹیوٹ نے مانا ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح ہرسال بجائے کم ہونے کے بڑھی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ چار غریب افرادمیں سے تین غریب عورتیں ہیں۔ پاکستان میں غربت کی شرح 33 فیصد سے بھی بڑھ گئی ہے۔
بینظیر ہاری سکیم میں وہ ساری زمینیں جوبے کار اوربنجر پڑی ہیں وہ کسانوں کو دیئے جانے کا پروگرام ہے اگر واقعی بینظیر سے محبت ہے تو بڑے زمینداروں کی زمینوں پر کام کرنے والے بے زمین ہاریوں کووہ زمین دلوائیں جس پر وہ سارا سال محنت کرکے سال کے آخر میں فصل کا آٹھواں حصہ لے کر چپ رہتے ہیں مگر یہ نہیں ہوگا کہ اس وقت بڑے زمینداروں میں تو بڑے ریٹائرڈ اور ورکنگ جرنیل بھی شامل ہیں، اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ وزیروں کی بات ہی چھوڑیں ان کو تووزارت ہی اپنے قبیلے کی سرداری کے عوض منانے کے طور پر ملی ہوئی ہے۔
مدعا ساری گفتگو اور تحریرکا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی منصوبے کی باقاعدہ سپرویژن نہیں ہوگی اس کو پایہ ٴ تکمیل تک پہنچانے کی نیت نہیں ہوگی لاکھ بینظیر کے نام سے منصوبے شروع کریں نیت اگر صرف کارروائی ڈالنے کی ہے تو خیر ہے ورنہ اس بی بی کی روح بہت تڑپے گی۔ وہ تو اس ملک کے لوگوں سے محبت کرتی تھی ۔اس کی محبت کو رسوا کرنے کا کسی کو حق نہیں ہونا چاہئے!