ان پر ترس آتا ہے جو اس ”المیہ“ پر چیخ و پکار کر رہے ہیں کہ پرویز مشرف کے جانے کے بعد بھی پرویز مشرف کا عہد اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے۔ لکھنے والے تو ”گو مشرف گو“ کے دنوں میں بھی صاف صاف لکھ رہے تھے کہ پرویز مشرف کی رخصت کے بعد بھی پرویزمشرف صاحب اپنی پالیسیوں کی شکل میں موجود رہیں گے بلکہ میں نے تو یہاں تک لکھا تھا کہ پرویز مشرف کی جگہ ان کے سخت ترین ناقدین… کوئی انقلابی یا مجاہدین نما بھی اقتدار میں آگئے تو پالیسیوں میں تسلسل ہی رہے گا کیونکہ ہم جیسے ملکوں کے حکمرانوں کی ”پالیسیاں“ نہیں ”مجبوریاں“ ہوتی ہیں جن پر پالیسیوں کا لیبل لگا ہوتا ہے ورنہ گنجی کا نہانا کیا اورنچوڑنا کیا۔ کوٹھی اناج نہ ہو تو کوتوالی میں راج نہیں ہوتا۔ دریا میں رہ کر مگر مچھوں سے بیر نہیں رکھا جاسکتا۔ پریت نہ جانے ذات کذات، بھوک نہ جانے باسی بھات۔ کندھے ڈالی جھولی چمار چھوڑا نہ کولی۔ ساری بات کھوٹی پہلے دال روٹی۔ نیت کھوٹی رزق نہ روٹی۔ پڑی فجر چولہے پر نظر۔ چاکری میں آکری نہیں چلتی۔ بھیڑ جہاں جائے گی مونڈ ہی منڈوائے گی۔ تر ہوئی آنت بجنے لگی تانت۔ بھوک میں بھجن بھی برا لگتا ہے۔ قرضخواہ کی رام رام بھی یموود کا پیغام لگتی ہے۔ غرضیکہ صدیوں پر پھیلے ہوئے سینکڑوں محاورے ہمیں مختلف انداز میں بتاتے ہیں کہ اقتصادیات اور آزادی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور یہ حقیقت عصر حاضر میں ماضی سے بڑھ کر لاگو ہے کہ جہاں عمومی امداد سے لیکر اسلحہ تک کیلئے غیروں کی طرف دیکھنا پڑے وہاں غیرت کو شیلف ہی کرنا پڑتا ہے ورنہ بھوک سے بلکتی خالص مغل شہزادی حسینی باورچی سے شادی پر مجبور نہ ہوتی۔ محاوروں پر تو لعنت بھیجو اپنے شاعر مشرق کی ہی سن لو جو کہتا ہے کہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہے اور موجودہ زمانہ میں سب سے بڑی ضعیفی ۔ معاشی ضعیفی ہے۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی طرح باہر بیٹھ کر بڑ بڑ کرنا اور بڑھکیں مارنا بہت آسان بیچارے حکمران ہی جانتے ہیں کہ اصل اوقات و حالات کیا ہیں جیسے قبر کا حال جاننے کیلئے مردہ ہونا ضروری ہے اسی طرح اصل مسائل سے آگہی کیلئے کو ریڈورز آف پاور میں ہونا بہت ضروری ہے اسی لئے اکثر لکھتا ہوں کہ جو حکمران اپنے عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتے انہیں پوری دنیا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔
معاف کیجئے تمہید ذرا طویل ہوگئی۔ مجھے تو ”عہد پرویزی“ کے فوراً بعد آپ کو یہ خبر دینا تھی کہ بدھ اور جمعرات کی شام لندن کے اک پر فضا مقام پر سابق صدر مشرف اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے درمیان ان کے مشترکہ دوستوں نے صلح کرا دی ہے۔ ”دروغ بر گردن راوی“ سابق صدر شوکت عزیزکی طرف سے ان کو پاکستان میں ”تنہا“ چھوڑ جانے کی وجہ سے سخت ناراض تھے جبکہ شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ ان کیلئے حالات ہی ایسے ہوگئے تھے کہ انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنا پڑا۔ سابق خاتون اول صہبا مشرف کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔ پرویز مشرف نے جس محنت سے ملک کو معاشی بحران سے نکالا تھا ، موجودہ حکومت نے اس کا ستیا ناس کرکے ملک کے ہاتھوں میں پھر سے کشکول پکڑا دیا۔ پرویز مشرف نے بتایا کہ ملکی حالات پر ان کی گہری نظر ہے اور آنے والے دنوں میں وہ عملی سیاست میں بھی آسکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں سمیت خبردار اورہوشیار رہے کہ ان کی ”پرفارمنس“ کے نتیجہ میں اس ”معجزہ“ کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ پچھلے دنوں برادرم توفیق کے لنچ پر ڈاکٹر بابر اعوان سے ملاقات ہوئی تو انہیں مخلوط حکومت کی کامیابی کے شعور سے بھرپور پایا۔ مطلب یہ کہ اس کا قائم رہنا ہی نہیں۔ کارکردگی اور کامیابی بھی بہت ضروری ہوگی ورنہ مشرف اورشوکت میں تو صلح ہو ہی چکی ہے۔ ان دونوں کیلئے موجود نفرت بھی باقی نہیں رہی بلکہ لوگ ان کے بارے ”کلمہ خیر“ بھی بولنے لگے ہیں اوربین الاقوامی پاور پلیئرز اورپاور بروکرز کے ساتھ ان کے تعلقات بھی ڈھکے چھپے نہیں تو اتحادیو۔ ہوشیار خبردار!!