• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بات میں تواب کوئی شک نہیں کہ جتنا متاثر پاکستان کو نفسیاتی لحاظ سے 16دسمبرکے دن نے کیا ہے ایسا کسی اوردن نے نہیں کیا پہلے ہمارے ازلی دشمن بھارت نے مشرقی پاکستان میں پاکستان مخالف جذبات کو ہوادے کرسازش میں کردارادا کیااور1971 میں اس دن ہمارا مشرقی بازوکٹ کر بنگلہ دیش بنا اوریہ دن پاکستان کے دولخت ہونے کا ایک مستقل حوالہ بن گیا ، اورپھرگزشتہ سال دشمن نے اسی دن اس سے بھی بڑی سازش کرکے پشاورکے آرمی پبلک اسکول میں داخل ہوکربچوں کے خون سے ہولی کھیلی، مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے درد کو توصرف مغربی پاکستان بلکہ یہاں کی ان قوتوں نے ہی محسوس کیا جوپاکستان کو یکجا دیکھنا چاہتے تھے لیکن اسکول پراس حملے کو تواپنوں نے ہی نہیں غیروں نے بھی بلکہ دشمنوں نے بھی محسوس کیا ۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ دشمن نے یہ دن منصوبہ بندی کرکے ہی چنا تھا تاکہ پاکستان کوکم ازکم ایک ایسا دن ضروردیا جائے جس دن پوری قوم مشترکہ طورپردل گرفتہ ہوا وراس دن کے زخم ہمیشہ تازہ رہیں۔
اس دن کو بھلانا یقینا کم ازکم ایک دونسلوں تک توممکن نہیں ہوگاتاہم اس دن کے اثرات کی راکھ کو اگرکریدا جائے تواس میں سے شاید کچھ مثبت باتیں بھی ملیں کہ اس دن نے ہمیں بطورقوم متحد ہونے کا موقع فراہم کیا اورہر وہ شخص اورتنظیم جودہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے پرالگ الگ سوچ رکھتی تھی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اس بات پرمجبورہوئے کہ اس متفقہ یا متحدہ سوچ کا ساتھ دے جو اس حملے کے نتیجے میں بنی۔ اس سے پہلے مشکل تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف کھل کرکار روائی کی جائے اورتمام سیاسی ومذہبی جماعتیں ان کارروائیوں کی حمایت بھی کریں یا کم ازکم اس کی مخالفت نہ کریں، اس سے پہلے یہ بھی مشکل تھا کہ فرقہ واریت کے عفریت پرکس طرح ہاتھ ڈالا جائے اور کیسےایسی پالیسیاں بنائی جائیں جوملک میں لائوڈ اسپیکراورنفرت آمیزلٹریچر کے غلط استعمال اورایک دوسرے کوکافرقراردینے سے روک سکیں، اس سے پہلے یہ بھی مشکل تھا کہ ملک میں عفریت کی طرح پھیلتے سوشل میڈیاکوایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے کے استعمال سے روکا جاسکے اوریہ بھی آسان نہ تھا کہ دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے والی رقوم کے سرچشموں پرہاتھ ڈالا جاسکے۔ ایسی بہت ساری چیزیں تھیں جن پرہاتھ ڈالا گیا اوراب لگتا ایسا ہے کہ ریاست بیدارہوگئی ہے سیاسی اورعسکری قیادت ایک ہی پیج پرہیں یہی وجہ ہے کہ ہر اہم مقام پروزیراعظم کے ہمراہ آرمی چیف بھی کھڑے نظرآتے ہیںوجوہات جو بھی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اب پوری قیادت میںدہشت گردی جیسے اہم معاملے پرکوئی بڑی اختلافی آواز سننے کو نہیں مل رہی اوروہ بھی اب کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں جودہشت گردی کو مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کے حامی تھے۔ اس سارے عمل میں ان بچوں کے خون نے جوکردار ادا کیا وہیں پراس میں ریاست پاکستان کے ساتھ برسرپیکاران عناصرکی کمزوریوں کا بھی ہاتھ تھا جوایک جانب مذاکرات کررہے ہوتے تھے اوردوسری جانب انہی میں سے کوئی حملے بھی کررہا ہوتاتھایہی وجہ بنی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سارا عمل ہی لپیٹ لیا گیا اورطالبان کے اندربھی ٹوٹ پھوٹ ہوئی ان میں سے کئی نے ایک دوسرے سے راستے جدا کرلئے تحریک طالبان کے مرکزی امیر ملا فضل اللہ کی قیادت میں کچھ نے حکومت کے ساتھ جنگ کو جاری رکھنے کا راستہ چنا اوروزیرستان سے اورکزئی اورخیبرایجنسی منتقل ہوگئے لیکن جب وہاں بھی ان کا پیچھا کیا گیا تووہ افغانستان کے مشرقی صوبوں میں پناہ گزین ہوئے اوروہیں سے پاکستان کے اندرکارروائیوں کی منصوبہ بندیاں شروع کردیں اورغالب گمان یہی ہے کہ یہی وہ گروپ ہے جس سے منسلک لوگوں نے آرمی پبلک اسکول پرحملہ کیا۔ محسود قبائل سے تعلق رکھنے والوں نے تحریک طالبان سے اپنے راستے جدا کرکے اپنی کارروائیوں کو جنوبی وزیرستان تک محدود کیااس گروپ کو یہ شکایت تھی کہ بہت سارے لوگ طالبان کا نام استعمال کرکے اس قسم کے جرائم میں ملوث ہوگئے ہیں جوان کی بدنامی کا باعث بن رہا تھا۔ عصمت اللہ معاویہ کی سربراہی میں پنجابی طالبان کا ایک گروپ جنگ سے تائب ہوکردعوت وتبلیغ کے راستے پرچل پڑا۔ طالبان کے ایک بڑے حصے نے جماعت الاحرارکے نام سے اپنے آپ کو سمیٹا اورمہمند ایجنسی سے متصل افغان سرحد کی دوسری جانب اپنے آپ کو منظم کیااوروہیں سے ملک کے اندر کارروائیوں کی ذمہ داریاں قبول کرنی شروع کیں۔ اس تقسیم درتقسیم عمل کے بعد جوطالبان خصوصا غیرملکی گروہ بچ گئے وہ مختلف چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہوکرافغانستان سدھارگئے۔ اب ایک ایسی شکل میں انہیں طالبان کہیں یا عسکریت پسند ان کو اپنی جگہ سے ہلا تودیا گیا ہے لیکن پشتوکی ایک کہاوت کے مصداق وہ ختم نہیں ہوئے بلکہ اس سانپ کی مانند اب بھی کہیں بیٹھ کرمنصوبہ بندی کررہے ہیں جو زخمی ہے اورزیادہ خطرناک ہوچکا ہے۔خاکم بدہن اب بھی وسوسے سراٹھارہے ہیںکہ یہ زخمی سانپ بدلہ لینے کے لئے کسی بڑے حملے کی منصوبہ بندی کررہا ہے جس کا بڑا مقصد لوگوں کو باورکرانا ہوگا کہ ابھی وہ ختم نہیں ہوئے بلکہ اب بھی کارروائیاں کرنے کی پوزیشن میں ہیں ایک ایسی صورتحال میں نہ صرف افواج پاکستان، پولیس، خفیہ ایجنسیوں بلکہ پورے معاشرے پربھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ آنکھیں کھلی رکھیں تاکہ پھرکوئی بڑا زخم ہمارے قومی وجودکے کسی حصے کو مفلوج نہ کرسکے۔ ایسے میں ریاست اورحکومت کے علاوہ تمام سیاسی اورمذہبی جماعتوں اورہرفرد پریہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وارکا انتظارنہ کریں بلکہ مل کرکچھ ایسا منصوبہ بنائیں کہ وہ جنہیں اس جنگ سے روک سکتے ہیں ان کو روک لیں اوراگرنہ روک سکیں توریاست کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کراس جنگ میں شریک ہوں اوراسے بھی اس بات پرمجبورکریں کہ وہ اس جنگ میں بھی انصاف کے تقاضوں کو مدنظررکھ کراقدامات کرے تاکہ جب مورخ ہماری تاریخ لکھے تووہ یہ نہ کہے کہ مملکت پاکستان نے اپنے دشمن کو کچلنے کے لئے انصاف سے کام نہیں لیا۔ اس بات پربھی توجہ دینی ہوگی کہ دشمن صرف وہ نہیں جوہمیں نظرآرہا ہے بلکہ دوست ممالک کے روپ میں دشمن بھی ان لوگوں کا ساتھ دے رہا ہے جوہمارے دشمن گروپوں کو نہ صرف افغانستان میں پناہ دے رہا ہے بلکہ انہیں پاکستان کے اندرکارروائیوں کے لئے رقم بھی فراہم کررہا ہے۔ دہشت گردوں کا مقابلہ صرف اس طرح ہی کیا جاسکتا ہے کہ پورا معاشرہ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ایک دوسرے کے سنگ مل کراس جنگ میں شریک ہو تاکہ آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی مائوں جیسی اورمائیں دلگیرنہ ہوں۔
تازہ ترین