حکمران سیاستدانوں کا تعلق خواہ کسی سیاسی جماعت سے ہو، اگر وہ نسلی، لسانی، سیاسی اور گروہی بنیادوں پر پیش قدمی کرتے ہوئے انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا کر اپنی پیش رفت کو یقینی بنانے اور تمام قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر محض ذاتی مفادات کو اپنی سیاست کا محدود مرکز بنالیں تو قوم ان سے قومی مفادات کی امید وابستہ نہیں کرسکتی۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے بعض حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو محض ذاتی مفادات سے تعلق ایک واضح اور دو ٹوک صورت میں سامنے آتا ہے، سابق صدر آصف علی زرداری کے متعلق یہ کہنا کہ انہیں 18سال بعد چھوٹے اور بے بنیاد سیاسی انتقام پر ہی مقدمات سے نجات ملی اور عدالت نے ان کے خلاف تمام مقدمات ختم کردیئے بلاشبہ سیاسی فیصلے اپنی جگہ موجود ہیں لیکن پورے بھٹو خاندان کے افراد کو نشانہ بنانا، ان سے جان چھڑانے کے لئے انہیں خوفناک انجام سے دوچار کرنا اور اپنے دور میں آمریت کی سرپرستی کرتے ہوئے اپنے مفادات کا حصول کوئی نقش آب نہیں کہ انہیں نظر انداز کردیا جائے، خاندان کے کم و بیش تمام افراد کو خود بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کے رویئے نے ان تاثرات کو تقویت دی تھی کہ دبئی میں قیام کے دوران انہوں نے ان سے علیحدگی حاصل کرنے کافیصلہ کر کے انہیں اپنی سطح پر آگاہ بھی کردیا تھا اسی بنیاد پر راولپنڈی میں ان پر قاتلانہ حملے کو تقویت ملی اور آج تک قاتلوں کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا گیا بلکہ بعض افراد جنہوں نے ماضی میں بھٹو مرحوم کی سزائے موت پر اظہار مسرت کرتے ہوئے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں وہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف رہے اور خود بھی انہوں نے بڑے بڑے سیاسی عہدے حاصل کیے جہاں تک زرداری کا طویل عرصے تک جیل کاٹناہے تو اس کے بنیادی اسباب کا تجزیہ عدالت ہی کرسکتی ہے انہیں جیل خانوں میں پہنچانا، قید و تنہائی، میں رکھنا عدالت کا کام تھا یہ کہنا کہ انہیں بے نظیر بھٹو کے خلاف بیان بازی پر مجبور کیا گیا تو اس کا کوئی عملی ثبوت نہیں ورنہ اگر ایک میاں بیوی میں علیحدگی کا تاثر تقویت پکڑ جائے اور اس کی ٹھوس بنیادیں بھی فراہم ہوں تو انہیں کوئی بھی طاقت یہاں تک کہ مذہب بھی علیحدگی سے روک نہیں سکتا۔ یہ امر ہرگز حقیقت سے بالاتر نہیں کہ انہیں بھٹو خاندان کی بدولت ہی عزت ملی اور بزداری سے زرداری بننے کا شرف بھی اسی بنیاد پر حاصل ہوا ورنہ ان کے سیاسی پلڑے میں ایفی ڈرین اسکینڈل سے لیکر بے شمار ایسے عوامل موجود ہیں جو ان کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا ذریعہ ثابت ہوئے ان میں حج اسکینڈل ایسی مذہبی بنیاد پر حاصل ہونے والی بدنامی، رینٹل پاور کا مسئلہ اور ملکی اور غیر ملکی مہنگے داموں اور بھاری شرح سود پر حاصل کیے جانے والے قرضوں کے علاوہ غریب عوام پر بے جا اور ناروا ٹیکسوں کا بوجھ اور انکی اذیت کسی نیک نامی کی بجائے بدنامی کا سبب بنے جسے آج بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اس کے علاوہ ماضی میںخشک دودھ کا اسکینڈل بھی ایک سنگین مذاق بن کر رہ گیا جو عوامی لوٹ کھسوٹ کی انتہا ثابت ہواتھا ان تمام چیزوںکو پیش نظر رکھا جائے تو ان کے پلڑے میں بدنامی اور ناکامی کا تاثر اپنی گہرائیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وہ مکمل طور پر پارٹی سیاست پر چھا گئے اور تمام ضوابط کا مذاق اڑاتے رہے ان کے قول و فعل کا ہر تضاد ابھر کر سامنے آتا رہا۔ اس کردار نے بے نظیر بھٹو کے ان سے علیحدگی کے تاثر کو تقویت دی تھی ان کے نزدیک بے نظیر بھٹو کا قتل ایک سازش تھی جس نے پورے خاندان کو بے سہارا کردیا۔ اس سے قبل شاہنواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور انکی والدہ کے علاوہ خاندان کے بعض دوسرے افراد بھی نشانہ بنے لیکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی سیاست کی مکمل باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آگئی، پارٹی کا 5 سال تک برسراقتدار رہنا بے نظیر بھٹو کی قربانیوں ہی کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ اس دور میں آئینی ترامیم ان کا کارنامہ ہیں مگر انکا مقصد سیاسی عمل کو مضبوط اور محفوظ بنانا تھا۔18 سال بعد ان عدالتی فیصلوں کا مقصد حکومت کی طرف سے ملک گیر سطح پر سیاسی جماعتوں میں انتشار و افتراق کو ختم کر کےقومی اتحاد و یکجہتی کو مضبوط بنانا ہے ۔