• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دیار غیر میں پندرہ برس گزارنے اور پچاس سے زائد ممالک کے سفر کے دوران ہزاروں ایسے کامیاب پاکستانیوں سے ملاقات کا موقع ملا جو پاکستان میں مشکل ترین حالات سے تنگ آکر بیرون ملک پہنچے اور آج یہاں ملنے والے ہر فرد کے لئے یکساں مواقعوں اور انصاف پر مبنی اور کرپشن سے پاک نظام کی بدولت کامیاب ترین زندگیاں گزار رہے ہیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی قوم انتہائی ذہین،محنتی اور جفا کش ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی میں ملنے والے مواقعوںسے فائدہ اٹھانا بھی جانتی ہے لہذا دیار غیر میں کئی کئی برس محنت و مزدوری کے بعد جب بھی انھیں قدرت نے مواقع دیئے انھوں نے ان سے فائدہ اٹھاکر ترقی کی تیز رفتار دوڑ میں کامیابی حاصل کی اور نہ صرف اپنے انفرادی معاشی حالات بلکہ پیچھے پاکستان میں اپنے اہل خانہ کے حالات زندگی بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور ساتھ ہی ساتھ قانونی طور پر رقم کی ترسیل کی بدولت پاکستان کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں،ایک طرف تو یہ ستر لاکھ سے زائد محب وطن بیرون ملک پاکستانی ہیں جن کی اکثریت دیار غیر میں معاشی کامیابی کے بعد اپنے وطن میں سرمایہ کاری کے مواقعوں کی تلاش میں نظر آتی ہے تو دوسری جانب ہماری حکومت ہمیشہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کی تلاش میں رہتی ہے اور ان کے لئے مراعات کا اعلان بھی کرتی ہے، لیکن باوجود اپنی تقاریر میں ہر حکمراں ہی اوورسیز پاکستانیوں کی لازوال قربانیوں اور سالانہ پندرہ ارب ڈالر کا زرمبادلہ ملک کی معیشت میں شامل کیے جانے پر انکے شکر گزار نظر آتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سوائے وزیر اعلیٰ پنجاب کی حکومت کے کسی اور صوبے کی حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے کوئی بھی قابل ذکر قدم اٹھانے سے گریز کیا ہے جس میں وفاقی حکومت بھی شامل ہے جس نےبیرون ملک پاکستانیوں کی وزارت بھی سیاسی گٹھ جوڑ کے لئے ایسی جماعت کی ایسی شخصیت کو دے دی جس کی کارکردگی کے بارے میں آج تک سنا ہی نہیں گیا، لہذا یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ بیرون ملک پاکستانی دیار غیر میں اپنے آپ کو لاوارث تصور کرتے ہیں، بہرحال یہ تو تھی شکوے شکایت کی بات لیکن موجودہ صورتحال میں حکومت چاہے تو گوادر میں اوورسیز پاکستانیوں کو پرکشش ترغیبات دیکر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہیں ہموار کرسکتی ہے جس کے لئے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ذاتی طور پر توجہ دینا ہوگی، یہاں صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی سرمایہ کاری کے حوالے سے چند تفصیلات بھی یہ باور کرانے کے لئے کافی ہونگی کہ اگر انھیں گوادر میں موقع ملے تو بہت بڑی سرمایہ کاری اوورسیز پاکستانیو ںکی جانب سے بھی پاکستان میں آسکتی ہے، سب سے پہلے جاپان میں مقیم پاکستانیوں کی بات کرلی جائے تو بہتر ہوگا، جاپان میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق دس ہزار پاکستانی مقیم ہیں جن میں سے نو ہزار پاکستانی گاڑیوں اور مشینری کی برآمدات کے کاروبار سے منسلک ہیں ان نو ہزار پاکستانیوں کی جاپان سے مجموعی برآمدات چار ارب ڈالر سالانہ ہیں یہ پاکستانی دولاکھ سے زائد گاڑیاں اور مشینری برآمد کرتے ہیں جس سے جاپان کو چار ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے جبکہ یہ نو ہزار پاکستانی دنیا کے سو سے زائد ممالک میں جاپان سے گاڑیاں اور مشینیں برآمد کرتے ہیں جبکہ کئی درجن ممالک میں ان پاکستانیوں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جس میں دبئی میں کی جانیوالی سرمایہ کاری بھی اربوں ڈالر سے کم نہیں ہے،جہاں ان پاکستانیوں نے بڑی تعداد میں شو رومز قائم کررکھے ہیں جہاں دنیا بھر سے گاڑیوں اور مشینوں کے خریدار آتے ہیں اور سال بھر گاڑیوں کی خریدو فروخت جاری رہتی ہے،تاہم دبئی میں مہنگائی بڑھنے، شورومز کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافے،رہاشی مکانوں اور فلیٹوں کی قیمتوں اور کرایوں میں بے پناہ اضافے کے سبب دبئی میں افریقی ممالک سے آنے والے خریداروں کی تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے جس سے پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی نقصان ہورہا ہے لہذا اگر حکومت پاکستان گوادر میں ایک ہزار ایکڑ زمین کو فری پورٹ اور ایکسپورٹ فری زون قرار دے کر بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے مختص کردے تو صرف چند دنو ں میں ہی یہ ایک ہزار ایکڑ زمین بہترین نرخوں میں نہ صرف فروخت ہوجائے گی بلکہ بیرون ملک پاکستانی اپنی سرمایہ کاری سے ایک بہترین علاقے میں بدل دیں گے صرف یہ ہی نہیں جب یہاں استعمال شدہ گاڑیوں کے شو روم قائم ہونگے تو دبئی جانے والے سیاح اور خریداروں کی بہت بڑی تعداد گوادر کا رخ کرے گی،جس کے لئے گوادر میں ہوٹل انڈسٹری میں سرمایہ کاری ہوگی،رہائشی عمارتیں قائم ہونگی جبکہ دبئی میں زیادہ تر افریقی ممالک سے خریدار آتے تھے جبکہ گوادر میں نہ صرف افریقی ممالک بلکہ ایران،عراق، افغانستان اور وسط ایشیا کے ممالک کے خریدار دبئی جانے کے بجائے گوادر کا رخ کیا کریںگے، جس سے علاقے کے عوام کے معاشی حالات بھی بہتر ہونگے، پاکستان کی معیشت میں بھی بہتری آئے گی اور گوادر دیکھتے ہی دیکھتے خطے کا معاشی مرکز بن کر سامنے آئے گا، لیکن ان سب کے لئے حکومت کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا گوادر میں سرمایہ کاروں کے لئے سہولتیں پیدا کرنی ہونگی، سیکورٹی کے انتظامات بہترین کرنا ہونگے،دبئی کی طرز پر گوادر کے لئے خصوصی پولیس کا محکمہ قائم کرنا ہوگا،گوادر میں صرف جاپان میں مقیم پاکستانی ہی نہیں بلکہ امریکہ، کینیڈا سمیت یورپ میں مقیم پاکستانی بھی لیفٹ ہینڈ گاڑیوں اور مشینوں کے شورومز قائم کرسکیں گے لہذا یہ موقع پوری دنیا میں مقیم پاکستانیوں کے لئے ہوگا اور اگر حکومت ملک کی معیشت کے لئے فائدے مند ایسےمنصوبے کو حتمی شکل دینے میں کامیاب ہوگئی تو ستر لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں حکومت کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا بلکہ ملکی معیشت بھی مضبوط ہوگی۔ دیار غیر میں رہنے والے ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ پاکستان کی معیشت بہتر ہو، پاکستان ترقی کرے، پاکستان میں تعلیم، انصاف اور امن و امان کا بول بالا ہو،پاکستانی قوم بھی دنیا کی تیز رفتار ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند ہو، لیکن خواہشیں تو بہت ہیں ان کو ممکن بنانا تو حکومت کا کام ہے دیکھنا یہ ہے کہ گوادر میں حکومت پاکستان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے کیا مواقع فراہم کرتی ہے یا صرف مستقبل میں بھی بیرون ملک پاکستانی حکومت کو صرف تقریروں میں ہی یاد رہتے ہیں۔ فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔




.
تازہ ترین