• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مایوں کی خوبصورت و دل فریب تقریب جاری تھی…خوشی کے شادیانے بج رہے تھے اور مایوںکے ائوسر(موقع) پر ایک معتبر’’ ماں یوں‘‘ اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھی کہ جیسے ’’کچھ سُونا سُونا سا لاگے ہے ‘‘ مگر قبل اِس کے کہ وہ مزید سوچتی کہ اِسی محل کی چاردیواری میں کہیں ’’کچھ کچھ ہونے لگا‘‘…درجنوں کمروں پر مشتمل عالی شان قصرِ امارت کے کسی ’’بڑے کمرے‘‘ سے ایک مدھر دُھن دل کو چھو لینے والے بولوں کیساتھ ’’ان کہی خواہشوں‘‘ کی گویا سفیر بن کر دارالامارہ کے ہر ایک گوشے میں خوشبو کی طرح پھیل گئی ’’دو دل مل رہے ہیں مگر چپکے چپکے …سب کو ہورہی ہے خبر چپکے چپکے‘‘ اِس ساز و آواز نے راجا کی ’’اسٹیل کی طرح مضبوط‘‘ دوستی میں جیسے مزید لوہا پگھلا کے ڈال دیا تھا…وہ ’’شیر‘‘ کی طرح اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا کہ اچانک اُس کے ’’ببّر شیر‘‘ نما سمدھی نے ہانپتے کانپتے اطلاع دی کہ ’’وہ اُتر گیا ہے ‘‘ اور یہ پرمسرت خبر سنتے ہی کانوں میں گونجتا نغمہ یک دم تبدیل ہوگیا اور ’’پوِتر گنگا‘‘ کی تہہ میں کشورداکے ’’کلش‘‘ سے آواز آئی ’’ بنے چاہے دشمن زمانہ ہمارا، سلامت رہے دوستانہ ہمارا‘‘…اورپھر یکایک گول مگر کشمیر سے زیادہ حسین و جمیل چہرے پر ایک مسکراہٹ نیا گیت گنگنانے لگی کہ ’’تیرے جیسا یار کہاں؟ کہاں ایسا یارانہ ‘‘… سمدھیوںنے آنکھوں ، آنکھوں میں ایک دوجے کو مبارک باد دی اور فاتحانہ انداز میں محل کے صدر دروازے کی طرف بڑھنے لگے جہاں اُن کی چم چماچم کارتیار کھڑی تھی لیکن اُس میں راجا نے اپنے ایک راج کمار اور لکشمن جیسے بھائی کو پدھارنے کی آگیا دی اور لکشمن نے ’’لاوا‘‘ (جن کے نام پر آج لاہور ہے) کو اپنے ساتھ بٹھایا اور پِتا سمان بھائی کو گردن موڑ کر اُس وقت تک دیکھتے رہے جب تک کہ گاڑی نے محل سے باہر کا دروازہ نہ دیکھ لیا …
رانی، شہزادی، باندیاں، نوکر چاکر سب ہی خوش تھے کیونکہ راجا کی خوشی قابل دید تھی، اُس نے مہمان خانے کے نگراں کو ایک بارعب آواز سے بلایا اور دریافت کیاکہ ’’لوہے کا یوراج‘‘ جِندل ’’جاگ رُک‘‘ ہے یا ابھی تک آرام کررہا ہے ؟…سیوک نے ادب سے کہا ’’مہاراج! وہ ابھی بیدار ہوئے ہیں اور اب’’اشنان ‘‘ کررہے ہیں‘‘… ٹھیک ہے مگر وہ ’’راج دُوت‘‘ ہیں اُن کا خاص خیال رکھنا اور اُنہیں بتادینا کہ اُنکے ’’پِتا شری‘‘ یہاں ’’پدھارنے ‘‘ والے ہیں اِسی لئے وہ جلدی سے وستر پہن کر تیار ہوجائیں ہم اُن کاسُواگت کرنے خود ہیلی پیڈ تک جائیں گے…راجا نے سُندر سپنوں میں گم سم انداز میں سیوک کو حکم دیا اور وہ ’’جو آپ کی آگیا‘‘ کہہ کر ’’اتیتھی گھر‘‘(مہمان خانے) کی طرف دوڑ پڑا… اِسی دوران رانی صاحبہ نے دو شبدھ کہنے کی آگیا چاہی اور پھر کہا کہ کیا ’’سیناپتی ‘‘ کو معلوم ہے کہ ’’وہ‘‘ آرہے ہیں…؟ راجا کی طویل ترین پیشانی پر یکایک لکیریں اور پسینے کے قطرے نمودار ہوئے اور اُس نے کچھ سمے تک گہری نگاہوں سے رانی کو دیکھا مگر پھر سنبھلتے ہوئے کہا کہ ’’بھاگوان تم چنتا نہ کرو ہم ایک پیج پر ہیں‘‘…’’ اِکشما (معاف) کیجئے گا، میرا اُتّر یہ نہیں تھا کہ آپ دونوں ویاگتی ایک پیج پر ہیں یا نہیں؟ اُتّر تو یہ ہے کہ سینا پتی کو ’’اُن‘‘ کے آنے کی سُوچنا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے اور یہ سماچار کسی اور مادھیم سے اُن کی ائور پہنچے تو انرتھ ہوجائیگااور اب آپ میں اتنی شکتی نہیں ہے کہ جیل یاترا کے بنواس کو سہہ سکیں…رانی کی آواز میں لرزہ طاری تھا…راجا نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ ’’شبھ شبھ بول! ’’وہ‘‘ صرف ایک گھنٹے کی استھاپنا (قیام) کے بعد روانہ ہوجائیگا اور ویسے بھی یہ راج پاٹ کے بھید بھائو نہیں ہیں کچھ بیوپار کی کلپنائیں ہیں تم چنتا نہیں کرو اور اندر مہمانوں پر دھیان دو‘‘…راجا کی باتوں نے رانی کو تھوڑا سا اطمینان ضرور دیا تھا لیکن اُسے اپنی فکر زیادہ تھی کیونکہ پچھلی بار بھی اُس وقت کے سینا پتی نے ودھرویوں کے ساتھ مل کر جب راجا کو قید خانے میں ڈال دیا تھا تب وہ اکیلی ہی میدان میں جھانسی کی رانی بن کر اپنے راجا کی رکشا کیلئے اُتر آئی تھی پر انتو اب اُس کی ہڈیاں بوڑھی ہوچلی تھیںاور اُس میں وہ دم خم نہیں تھا کہ وہ راجا کی اُس طرح رکشا کر سکتی حالانکہ اُس کی کوکھ سے جنمی اب اُس کی راج کماری ایک انتہائی سُشیل اور دھرم کا پالن کرنے والی ابلا ناریوں میں سے ہے اور وہ اپنے پِتا کے سمان کیلئے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے لیکن صرف رانی ہی جانتی ہے کہ راجا کوجیل میں کس قدر کٹھنائیں اُٹھانا پڑتی ہیں اور مچھر اُنہیں بھن بھن کر کے جب پریشان کرتےہیں تو اُنہیں ایک پل بھی چین نہیں آتا … ابھی وہ اِن ہی مُدّوں کو سلجھانے میں لگی تھی کہ محل میں شور مچ گیا کہ ’’وہ آگئے وہ آگئے ‘‘… رانی یک دم گھبرا گئی کہ کہیں ’’وہی ‘‘ تو پھر سے نہیں آگئے لیکن پھر ’’گیروے مہمان‘‘ کو دیکھ کر اُس کی جان میں جان آئی جو اُس کے پتی پرمیشور کے ساتھ محل میں پدھار رہے تھے…
’’یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے، توڑیں گے دم مگر تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے ‘‘… اِس سُندر گیت نے تو گویا اتیتھی کے ساتھ محل کی رونق مزید بڑھادی تھی…اتیتھی نے پہلے مہاراج کی ماتا کے پائوں چھوئے اُن سے اشیرواد لیا اور پھر مہاراج کی ناتی(نواسی) کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا حالانکہ خود یہ مُورکھ اِس سُکھ سے اب تلک محروم ہے …کچھ سمے تک رسمی چرچا ہوتی رہی اور پھر جیسے ہی جِندل نمودار ہوا مہاراج نے سب کو مہاشالے سے نکل جانے کا حکم دیا اور اب صرف سمدھی، لکشمن،لاوا، جندلِ اور گیروا اتیتھی اکیلے رہ گئے…اتیتھی نے ذرا قریب ہوکر پوچھا ’’مہاراج! آپ کی سینا سے کوئی نظر نہیں آرہا کیا اُنہیں نیوتا نہیں بھیجا تھا؟‘‘…مہاراج نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’جنہوں نے ہماری ملاقات کرائی ہے یہ اُن کی کامنائوں کا ورودھ ہوتا کیونکہ اُن کی اِچّھاہے کہ ہم اکیلے ہی میںملیں اِسی لئے جِندل بھی یہاں موجود ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اگر بات پھیلے بھی تو یہی کہاجائے کہ یہ سرکاری ملاقات نہیں بلکہ کاروباری معاملات تھے اور آپ میری ناتی کی شادی پر شبھ کامنائیں دینے یا پھرمیرے جنم دن پر مجھے بدھائی دینے آئے تھے‘‘…’’لیکن آج تو آپ کے جناح کا جنم دن ہے‘‘ گیروے اتیتھی کی آنکھوں میں حیرت در آئی…’’ دیکھ لیجئے ہم نے کیسا انتظام کیا ہے ، ہر چینل پر صرف آپ ہی کے سماچار ہیں اور جناح جی کے جنم دِن کی باتیں سب سے انتِم میں‘‘… یہ کہتے ہی مہاراج نے روایتی قہقہہ لگایا اور جیسے ہی وہ ہنسے سارے لوگ اُن کے ساتھ ہی ہنس پڑے…اتیتھی کے مکروہ چہرے پر راون کے دس اوتار ایک لمحے کے لئےپرکٹ (ظاہر) ہوئے اور وہ بھی قہقہوں میں شامل ہوگیا…پھر کافی سمے تک دونوں راجا سرگوشیوں میں باتیں کرتے رہے ، اسی دوران بھوجن آگیا…’’ماتا جی نے لگتا ہے دال اپنے شبھ ہاتھوں سے بنائی ہے‘‘ اتیتھی نے راجیہ کا نمک کھاتے ہوئے پراشانسہ(تعریف) کی…اتیتھی جی!سب آپ ہی کے واسطے ہے ، لکشمن نے جملہ لگایا…راجا کو لکشمن کا خوشامدانہ انداز پسند آیا اور اُ س نے اپنے بھائی کو مسکرا کے دیکھا تو لکشمن سفاری سوٹ میں شرما کر مزید سمٹ گیا…’’میرا خیال ہے کہ اب آپ گھوشنا کرادیں کیونکہ مجھے چلنا چاہئے ورنہ آپ کے سینا پتی سے زیادہ برداشت نہیں ہوگا‘‘…اتیتھی نے جیسے ہی سینا پتی کا نام لیا راجا کے ماتھے پر پھر سے ’’نقلی موتیوں ‘‘کی طرح پسینے کے قطرے جھلملانے لگے …’’ ہاں آپ درست کہتے ہیں، ہمیں چلنا چاہئے لیکن میں آپ کو خود وِمان (طیارے) تک چھوڑنے جائوں گا‘‘…’’آپ کشٹ نہ اُٹھائیں‘‘ اتیتھی نے روکنے کیلئے کہا…اِس میں کشٹ کیسا؟ آپ میرے مہمان ہیں اور ہم نے کس قدر مہاترپُورن(اہم ترین) چرچا (تبادلہ خیال)کیا ہے ، گاڑی میں مزید باتیں ہوجائیں گی‘‘…’’یہ بھی کُشل رہے گا‘‘ اتیتھی نے گہری سانس لیتے ہوئے حامی بھری اور پھر سب ہی باہر کی جانب نکل پڑے…قافلہ گاڑیوں میں سوار ہوا اور پاک راجیہ کو پڑوسی ملک میں گالیاں دے کر آنے والا اتیتھی پاک راجیہ کی سرزمین پر آیا بھی اورچلا بھی گیا،وِمان تک جاتے جاتے دونوں نے مزید باتیں کیں جوکسی کو نہیں معلوم ،سفر زیادہ طویل تو نہ تھا لیکن بسا اوقات طویل بحثیں مختصر سفر ہی میں لین دین کے اُصول کے تحت ختم ہوجاتی ہیں،اور پھرگاڑی وِمان تک جاپہنچی… اتیتھی سورپانک ( رامائن کا ایک کردار) کی طرح اُچھل کر گاڑی سے باہر نکلا اورتیزی سے وِمان کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سب کو بلندی سے نمسکار کیا او ر وِمان اُڑ گیا …راجا نے پسینہ پونچھتے ہوئے لکشمن اور سمدھی سے کہا بھگوان کی کِرپا سے سب کُشل منگل رہا کوئی انہونی نہیں ہوئی ، اچانک سب ایک جھٹکے سے زمین پر گِر پڑے…کیونکہ ریکٹر اسکیل نے راجا کو پیغام دیاتھا کہ اِس میں بھگوان کی کِرپا شامل نہیں…!!!
تازہ ترین