اسلام آباد(ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران خان اور پیپلز پارٹی کو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق مناظرے کا چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان اور بچہ پارٹی بتائے کہ انہوں نے اپنے صوبوں میں نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عمل کیا‘ آج وہ لوگ نیشنل ایکشن پلان پر بات کر رہے ہیں جنہوں نے اسے پڑھا تک نہیں‘ایک بچے کو جو کہا جاتا ہے وہ بولتا چلا جاتا ہے ایک روز وہ پاناما لیکس کا نام لے رہا تھا میں نے سوچا کاش اسے کوئی بتائے کہ اس کی اپنی والدہ کا نام بھی پاناما میں شامل ہے‘سانحہ کوئٹہ پر کمیشن کی رپورٹ یکطرفہ ہے‘ہمارامؤقف سنے بغیرذاتی الزامات لگائے گئے ‘رپورٹ کو ہر فورم پر چیلنج کروں گا‘سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں اپنا مؤقف پیش کروں گا‘ عہدہ نہیں عزت اہم ہے‘گناہ گارہوں مگرجھوٹانہیں‘اہلسنت والجماعت کے وفدسے ملانہ کسی کو جلسے کی اجازت دی‘ سیاست کو ذریعہ معاش نہیں بنایا‘رپورٹ آنے پر وزیراعظم کو استعفیٰ کی پیشکش کی تاکہ ریکارڈکو درست کرسکومگر وزیر اعظم نے یہ پیشکش مستردکردی‘ 35سالہ سیاسی کیریئر میں فیکٹری ‘ پٹرول پمپ ‘ ایل این جی کا کوٹہ اور کوئی آف شور کمپنی نہیں بنائی‘پارلیمنٹ میں جتنی چاہیں تحاریک التواء پیش ہوں سامنا کرو ں گا۔ہفتہ کی شام پنجاب ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثارنے کہا کہ سانحہ کوئٹہ پر سپریم کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ اخبارات کے ذریعے پڑھی ‘ ہمارا موقف آئے بغیر یکطرفہ رپورٹ کیسے سامنے آئی ‘ ذاتی بنیاد پر غلط بیانی نہیں کرتا ‘ رپورٹ میں سرکاری نہیں بلکہ ذاتی الزامات لگائے گئے ہیں‘سپریم کورٹ تو مقام سکون ہے‘میں سوچ نہیں سکتا تھا کہ ایسی کوئی بالواسطہ سامنے آئیگی‘انہوں نے کہا کہ میں نے پڑھا کہ و زیر داخلہ نے غلط بیانی کی ، 2 دن سے میری وزارت اور حکومت پر الزامات تراشی ہو رہی ہے‘ میں کل خود وزیر اعظم کے پاس گیا اور انہیں اپنے استعفے کی پیشکش کی جس پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ میرے لئے ناقابل قبول ہے‘انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جہاں کامیابیاں ہوتی ہیں تو وہاں بہت سے دعویدار نکل آتے ہیں مگر کچھ خیر خواہوں کو امراض لاحق ہیں‘ جب کوئی مسئلہ ہو تو ذمہ داری میری وزارت پر ڈال دی جاتی ہے‘دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب سے بڑی ضرورت سول ملٹری کوآرڈنیشن کی ہے‘انٹیلی جنس بنیادوں پر 20 ہزار سے زیادہ آپریشنز ہو چکے ہیں ، وزیر داخلہ نے کہا کہ میرے پاس خط آیا جس میں 5سوالات کئے گئے تھے ‘پہلا سوال آیا کہ اہلسنت و الجماعت کے وفد جس کی قیادت مولانا لدھیانوی کر رہے تھے کیوں ملے؟ میرا جواب تھا کہ میں اہلسنت و الجماعت کے وفد سے نہیں ملا،دوسرا سوال تھا کہ اہلسنت و الجماعت کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت کیوں دی گئی؟ میں نے جواب دیا کہ جلسوں کی اجازت دینا میرا نہیں ضلعی انتظامیہ کا اختیار ہے۔ تیسرا سوال تھا کہ ثبوت ملا ہے کہ نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کا کبھی اجلاس نہیں ہوا کیوں؟ میں نے جواب دیا کہ نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کا آخری اجلاس دسمبر 2014ء میں ہوا ۔ چوتھا سوال یہ تھا کہ بورڈ آف گورنرز کا اجلاس کبھی نہیں ہوا کیوں؟ میں نے جواب دیا کہ یہ سوال وزیر اعظم سے متعلق ہے۔ پانچواں سوال یہ تھا کہ وزارت داخلہ میں اسپیشل سیکرٹری کیوں تعینات ہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ یہ تعیناتی قانون کے مطابق ہے‘ میرے جواب پر جواب آیا کہ اخباری رپورٹ اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ نے اہلسنت و الجماعت کے وفد سے ملاقات کی‘انہوں نے کہا کہ میں نے دفاع پاکستان کونسل کے 8 رکنی وفد سے ملاقات کی تھی جس میں ان سے شناختی کارڈ کے معاملے پر بات ہوئی‘وفد میں اگر مولانا لدھیانوی آئے تھے تو کیا انہیں نکال دیتا ؟وفد میں مولانا سمیع الحق نے مجھ سے بات کی تھی‘جماعت اسلامی سے پوچھا جائے کہ مولانا لدھیانوی کو کیوں لائے‘کوئی کتنا ہی بڑا مجرم کیوں نہ ہو اس کی شہریت منسوخ نہیں کر سکتے‘فورتھ شیڈول میں شامل شخص کی شہریت منسوخ نہیں کر سکتے‘شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حسین حقانی کے پاس بھی ہے، حسین حقانی کی شہریت بھی وزارت داخلہ ختم نہیں کر سکتی‘5 سال ملکی خزانے کیساتھ طوفان بدتمیزی ہوا‘جب ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے تو میں لندن میں تھا‘ان کی گرفتاری پر ڈی جی رینجرز اور آصف علی زرداری سے بات ہوئی‘ایان علی ‘ ڈاکٹر عاصم کیس کا الزام مجھ پر لگایا جاتا ہے‘پیپلز پارٹی یا ڈاکٹر عاصم سے کوئی دشمنی نہیں ‘ماڈل ایان علی کا کیس وزرات داخلہ کا نہیں، وزارت خزانہ کا ہے، یہ معاملہ صرف پانچ لاکھ ڈالرز کا نہیں،اس میں سیاسی گٹھ جوڑ بھی شامل ہے ‘سپریم کورٹ کے جج کو سمجھنا چاہیے کہ پیش ہونیوالوں کی بھی عزت ہے‘ آج بھی کہا گیا کہ پریس کانفرنس نہ کریں جب استعفیٰ کا کہا تو پھر آگے بات بڑھی‘انہوں نے کہاکہ پلیٹ فارم بتائیں ‘ فوج ‘ وفاقی حکومت ‘ صوبائی حکومتوں نے کیا کیا ،سب بتانے کو تیار ہوں‘ سپریم کورٹ سے درخواست ہے مجھے جلد سے جلد سنا جائے‘پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 10ہزار سے زائد دہشت گردی کے واقعات ہوئے لیکن کسی کلرک نے بھی استعفیٰ نہیں دیا‘کیسز مجھے ورثے میں ملے ، یہ کہتے ہیں میں روک دوں لیکن میں انہیں نہیں روکوں گا‘نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا ریکارڈ سامنے لائوں گاجن کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہر چیز کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں پیش کروں گا‘اگر فاٹا ریفارمز نہیں ہوئیں تو وہ میر ے متعلق تو نہیں‘ڈاکٹر عاصم کے خلاف جنہوں نے کیس بنایا ہے ان کے خلاف بولنے کی جرات کی جائے‘ایک بچے سے جو منہ میں آتا ہے کہلوا دیتے ہیں‘ کاش اس بچے کو سمجھائیں کہ ان کی والدہ کا نام بھی پاناما لیکس میں شامل ہے‘ ان کے والد کا ایک سرے محل اور دیگر جائیدادیں دبئی میں ہیں۔