روزنامہ جنگ لاہور، 15 نومبر 2016ء۔ امتیاز عالم صاحب جہانگیر بدر پر اپنے مضمون عنوان:’’ہمارا بدر، تمہارا بدر:جہانگیربدر‘‘ میں پنجاب یونیورسٹی کے 1969ء کے سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں:’’یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پاکستان میں فوج کشی ہونے جارہی تھی اور جنرل یحییٰ خاں پاکستان کے پہلے انتخابات میں منتخب جماعتوں، خاص طور پر عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کو تیار نہیں تھے‘‘۔
امتیاز عالم صاحب بھول گئے، کیونکہ جب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے یہ انتخابات ہوئے 69ء، یاجنوری 70ء میں تب صدر جنرل یحییٰ خاں کا وہ لیگل فریم ورک آرڈرابھی نافذ نہیں ہوا تھا جس کے تحت ملک کے دونوں حصوں میں 7 دسمبر 1970ء کو قومی اور 17 دسمبر 1970ء کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تھے۔ جنرل یحییٰ خاں نے 28 مارچ 1970ء کو ریڈیو اور ٹی وی پر اپنے خطاب میں لیگل فریم ورک آرڈر دیا جس میں انتخابات کے لیے رہنما اصول دیے گئے اور منتخب قومی اسمبلی کو ایک سو بیس یوم کے اندر آئین بنانے کا پابند کیا گیا۔ بصورت دیگر یہ اسمبلی کالعدم ہو جائے گی۔ تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ 69ء میں ہی مشرقی پاکستان میں فوج کشی ہونے جا رہی تھی اور یحییٰ خاں عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کو تیار نہیں تھے۔
مضمون نگار نے 70 ء کے ان انتخابات کو پاکستان کے پہلے انتخابات قرار دیا، جو درست نہیں۔ پاکستان میں پہلے عام انتخابات کا ڈول لیاقت علی خاںؒ کے زمانے میں ڈالا گیا تھا۔ مارچ 1951ء میں پنجاب میں انتخابات ہوئے۔ دوسرے صوبوں میں انتخابی سرگرمیاں جاری تھیں کہ 16 اکتوبر 1951ء کو انہیں شہید کر دیا گیا۔ ان صوبوں میں بعد میں انتخابات ہوئے۔ جنرل ایوب خاں اقتدار میں آئے تو انہوں نے بی ڈی سسٹم کے تحت انتخابات کرائے۔
یہ بھی درست نہیں کہ جنرل یحییٰ خاں عوامی لیگ کو اقتدار دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ یحییٰ خاں تو اس کے لیے تیار تھے، مجیب ہی متحدہ پاکستان کا اقتدار لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ ہمارے مقرر اور لکھاری حضرات جوشِ خطابت اور زورِ قلم میں یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ 70 ء کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلی کے ذمے اصل کام 120 یوم کے اندر آئین تیار کرنا تھا۔ مجیب اس کے لیے اگر تیار بھی تھا تو ایسا آئین دینے کے لیے جس میں ایک نہیں پانچ پاکستان ہوتے۔ کیونکہ اس کے ذہن میں بنگلہ دیش سمایا ہوا تھا۔ اب تو خود کئی بھارتی مصنفین اور سیاسی و عسکری شخصیتوں نے تصنیفات، مضامین، انٹرویوز اور بیانات میں یہ تسلیم کیا ہے کہ شیخ مجیب کے مشرقی پاکستان کو توڑنے کے لیے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ’’را’’ کے ساتھ بہت پہلے سے رابطے تھے۔
امتیاز عالم مزید لکھتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا’’پہلا انتخاب جھگڑے کی نذر ہو گیا‘‘۔ درست کہ جنوری 70ء کا یہ انتخاب جھگڑے کی نذر ہو گیا کہ بایاں بازو انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ اسے اسلامی جمعیت طلبہ کے امیدوار حافظ محمد ادریس کی جیت اس لیے بھی گوارا نہ تھی کہ اس کا خیال تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے ان نتائج کا اثر ملک کے عام انتخابات پر پڑے گا۔ اس سے پہلے یونین کے انتخابات ہوتے رہے۔ مثلاً:سال 61ء،62ء کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ کے عثمان غنی صدر یونین منتخب ہوئے تھے۔ 62ء،63ء کے لیے نصراللہ شیخ۔63ء،64ء میں بارک اللہ خاں ایک زور دار امیدوار تھے۔ میں ان دنوںہیلی کالج آف کامرس میں سال اول کا طالبعلم تھا، اور جہانگیر بدر بھی سالِ اول میں تھے۔ اس زمانے میں ان کا رجحان اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف تھا۔ 6 نومبر 1962ء کو یہ انتخاب ہونا تھا، بارک اللہ خاں چونکہ یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف بہت سرگرم چلے آ رہے تھے، اس لیے حکومت کو ان کی جیت گوارا نہ تھی۔ انتخابات سے تین روز پہلے 3نومبر کو اسی یونیورسٹی آرڈیننس کے تحت انہیں یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا۔ طلبہ کی طرف سے شدید احتجاج کے پیش نظر لاہور میں یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے 22 روز کیلئے بند کر دیے گئے۔ اسکے بعد اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن ہوتے رہے، لیکن نام نہاد۔ 67ء، 68ء کے سیشن کیلئے باقاعدہ الیکشن ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے عارف سید صدر اور شعبۂ صحافت میں مجھ سے ایک سال سینئر محی الدین احمد بطور آزاد امیدوار سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ اس لئے امتیاز عالم صاحب کا یہ فرمانا درست نہیں کہ 69ء یا 70ء کے یونین الیکشن پہلے الیکشن تھے۔
میں دو امور کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ اول یہ کہ ، سید امتیاز عالم شاہ گیلانی صاحب لکھتے ہیں:’’مغربی پاکستان میں 1968ء کی عوامی تحریک جو سوشلزم کے نعروں سے گونج رہی تھی اور جس نے بھٹو صاحب کو ایک عوامی رہنما کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کیا‘‘۔شاہ صاحب! 1968ء کی عوامی تحریک قطعاً سوشلزم کے نعروں سے نہیں گونج رہی تھی۔ حالت یہ تھی کہ بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی کا نعرہ تو دے دیا:’’اسلام ہمارا دین ہے۔
سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘۔لیکن اصطلاح سوشلزم اور اسلامی سوشلزم کی شدید مخالفت اور عوام الناس کی طرف سے زبردست ناپسندیدگی کے سبب انہوں نے پیپلز پارٹی کے جلسوں میں محتاط رہنے کی پالیسی اپنائی۔ انتخابی مہم کے دوران میں تو وہ اسلامی سوشلزم سے محمدی مساوات پر آگئے اور کارکنوں اور دوسری تیسری صف کے لیڈروں کوبھی اسلامی سوشلزم کا نام لینے تک سے منع کر دیا گیا۔ میں تو گواہ ہوں اس چیز کا، کہ روزنامہ نوائے وقت اور بعد میں روزنامہ جاوداں کا میں پولیٹکل رپورٹر تھا اور لاہور ہی نہیں بیرون لاہور بھی تمام سیاسی جماعتوں کے اہم جلسوں اور جلوسوں کی کوریج میری ذمہ داری تھی۔ تو پھر سید امتیاز عالم شاہ گیلانی کی یہ بات کیسے درست مان لی جائے کہ ’’سوویت یونین کے انہدام کے بعد بایاں بازو کمزور ہوا تو پیپلز پارٹی میں بھی عوامی رنگ کم ہوتا چلا گیا‘‘۔دوسرے، شاہ صاحب بے نظیر بھٹو کے 10 اپریل 1988ء کی لاہور آمد اور جلوس کے متعلق لکھتے ہیں:’’لوگوں کا کیا اژدہام (ازدحام)تھا جو ایئرپورٹ سے کالاشاہ کاکو اور شیخوپورہ تک اور سارے لاہور پر ہر جانب نظر آیا‘‘۔
میں اور میرا دوست بشیر جاوید اس جلوس کو شروع سے آخر تک دیکھتے رہے۔ ایک مرحلے پر استاد محترم پروفیسر وارث میر صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جلوس کی عددی قوت پرکھنے کے لیے ہم تینوں مال روڈ کی کریسنٹ بلڈنگ کی چھت پر چڑھ گئے۔جلسہ میں تین چار لاکھ سے زیادہ لوگ نہ تھے۔ پتا نہیں امتیاز عالم شاہ صاحب کے پاس کوئی سلیمانی انگوٹھی ہوگی جس میں سے انہیں کالا شاہ کاکو اور شیخوپورہ تک انسانوں کا ازدحام نظر آتا رہا۔ 1947ء میں لاہور کی آبادی کتنی تھی؟ یہی کوئی تین لاکھ۔ دوسرے شہروں سے بندے ڈھونے کے وسائل تھے نہ رواج۔ پھر بھی30 اکتوبر 1947ء ، قائداعظمؒ کا پنجاب یونیورسٹی میں جلسہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا، چوک پرانی انارکلی تک انسانوں کے ٹھٹ۔ دوسری طرف مزنگ چونگی تک بے کراں ہجوم۔ لیک روڈ، لوئر مال اور چوبرجی سے پرے تک بھی کندھے سے کندھا ٹکرا رہا تھا۔ ہجوم کے دباؤ سے یونیورسٹی گراؤنڈ کی چاردیواری ایسی ٹوٹی کہ برس ہا برس وہ اسی حالت میں رہی۔ 63ء سے 66ء تک بلکہ ملک معراج خالد کے 2 مئی 1972ء کو وزیراعلیٰ بننے تک جہانگیر بدر او ر میں اسے اسی حالت میں دیکھتے رہے۔ ملک صاحب کے دور میں اس کی تعمیر نو ہوئی۔
.