• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر جناب جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل یک رکنی جوڈیشل کمیشن نے مختلف ایجنسیوںکی خامیوں کو طشت ازبام کرتے ہوئے اُن صاحب، جن کے بارے میں فرض کیا گیا تھا کہ وہ تمام ایجنسیوں کی کاوشوں کو مربوط کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کی قیادت کریں گے، کی نااہلی کو واضح کرہی دیا ہے تو پھر کیا ہوا؟ان صاحب، یعنی وزیرِداخلہ، چوہدری نثارعلی خان کو ان تحقیقات کو دل پر لینے اور اس مطالبے پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ مستعفی ہوکر گھر چلے جائیں۔
پاکستان میں نااہلی عوامی عہدہ چھوڑنے کی وجہ کب تھی؟یہ تو تصور ہی غلط اور پاکستان کی مروجہ روایات کے برعکس ہے۔ توبہ کریں، اگر ہم یہاں ایسی روایت ڈال دیں کہ نااہل افراد کو نکال باہر کریں، یا توقع کریںکہ وہ خود ہی منصب سے الگ ہوجائیں گے تو پاکستانی پالیسی ساز اشرافیہ میں اتنا وسیع خلا نمودار ہوجائے کہ اسے پُر ہونے میں ایک صد ی کا عرصہ درکار ہو گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گفتار کا معرکہ سرکرنے میں چوہدری نثار کا ثانی کوئی نہیں۔ سامنے مائیک ہو تو پھر ’’اے دور ِ فلک تھم جا‘‘، الفاظ کا دریا ہے کہ بہتا ہی چلا جاتا ہے، عقل بیچاری خس خاشاک۔ قومی اسمبلی میں اُن کے ’’مختصر خطاب‘‘ کا دورانیہ یہی کوئی دوگھنٹے پر محیط ہوتا ہے۔ اگر چہ ہمارے ہاں ایسے ماہرین کی قلت نہیں جو بے تکان بولتے جائیں گے، گرچہ مطلب کچھ نہ ہو، لیکن ’’جو بات تجھ میں ہے وہ کسی اور میں کہاں‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ ایجاز واختصار دانائی کی روح ہو، لیکن ہمیں دانائی سے کیا سروکار؟
پی پی پی دور کے وزیر ِ داخلہ، رحمان ملک بھی کلام کو طول دینے کے ماہر تھے لیکن ملک صاحب کے فرشتے بھی چوہدری صاحب کی تکلمانہ پرواز کو چھو نہیں سکتے۔ میرا خیال ہے کہ جناب جسٹس فائز عیسیٰ نے چوہدری نثار کے بارے میں کچھ سخت الفاظ کہہ دئیے۔ اُنہیں جانچنے کا معیار مختلف تھا۔ چوہدری نثار کا فن پریس کانفرنسوں میں کھلتا ہے جس کا مظاہرہ وہ اسلام آباد کے پنجاب ہائو س میں اکتادینے والی باقاعدگی سے کرتے رہتے ہیں۔ خودپنجاب کے وزیراعلیٰ بھی فن ِ خطابت میں کسی سے کم نہیں۔ پنجاب ہائوس کے درویوار تکلمانہ سیاست کی فعالیت کے عصری گواہ ہیں۔
جیسا کہ میں نے کہا، چوہدری صاحب کی صلاحیتوں کی جانچ کرنی ہوتو پریس کانفرنسوں کے میدان میں کی جائے،نیشنل ایکشن پلان سے اُنہیں کیا لینا دینا؟ ہاکی کے کھلاڑی کی پرکھ کرکٹ میدان میں نہیں ہوتی۔ چوہدری صاحب کے جوہر دیکھنے ہیں تو آجائیں، میدان کھلا ہے۔مقابلے پر پریس کانفرنسیں کرکے دیکھ لیں۔ ایسا نہیںکہ کانفرنس میں اُنھوںنے کوئی خاص بات کہنی ہوتی ہے۔ موضوعات کی حاجت عام انسانوں کو ہوتی ہے۔ محترم کی گفتار بقراط آسا گہرائی کا احساس دلا سکتی ہے لیکن مفہوم تلاش کرنے کی کوشش اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گی۔ میراخیال ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ یہ نکتہ پانے میں قدرے غلطی کرگئے۔ یا تو آپ باقاعدگی سے پریس کانفرنسیں کرلیں اور کرتے ہی چلے جائیں اور آپ کے تکلمانہ قلزم کو رپورٹنگ کے کوزے میں بند کرنے کی سعی کرنے والے صحافی دوست بھی اسی کام پر معمور رہیں، یا پھر آپ بطور وزیرداخلہ اپنا اصل کام کرلیں۔ یہ دونوں کام بیک وقت ہونہیں سکتے۔ جس طرح ہرن کوکھیتی باڑی کے کام میں نہیں استعمال کیا جاسکتا، اسی طرح گفتار کے غاز ی سے عملی اقدامات کی توقع زیادتی ہوگی۔
تاہم اصل بات کی طرف واپس آتے ہیں کہ پاکستان میں نااہلی کی بنیاد پر منصب چھوڑنے کی روایت عنقا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے ہاں کبھی ریلوے منسٹر، سول ایوی ایشن کا سربراہ یا پولیس کا انسپکٹر جنرل مستقل نہ ہوتے۔ ہر حادثے کے بعد اُنہیں عہدہ چھوڑنا پڑتا۔ کیا کارگل ایڈونچر کے بعد جنرلوں کے تمام گروپ کو برطرف نہیں کردینا چاہئے تھا؟تاہم جب فیض آباد کے قریب اوجڑی کیمپ میں نواز شریف کو اس بابت بریفنگ دی گئی تو موصوف سخت سوالات پوچھنے کی بجائے پیش کیے گئے سینڈوچز کی تعریف کرتے پائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُس ایڈونچر کی اہمیت کو نہ سمجھ سکے جس میں مشرف اور کچھ جنرلوں نے ملک کو دھکیل دیا تھا۔ اس پر آرمی چیف کو برطرف کیا جانا چاہئے تھا۔ وزیراعظم کو بھی برطرف کیا جانا چاہئے تھا کیونکہ وہ اس سنگین معاملے کو سمجھنے میں ناکام ہوگئے۔ تاہم دونوں کی خوش قسمتی کہ مذہب کے نام پر قائم ہونے اور اپنے آپ کو عقیدے کی سربلند ی کے لئے وقف کر دینے والی اس ریاست میں ایسا نہیں ہوتا۔
جہاں تک نیشنل ایکشن پلان کا تعلق، تو اسے سنجیدگی سے کون لیتا ہے ؟سویلینز اس پر زبانی جمع خرچ کرکے وقت گزار دیتے ہیں۔ ان کے توجہ طلب امور اور ہیں۔ فوج اکیلی ہی دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑرہی ہے۔ سابق آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کے دور میں جب بھی فوج کی اعلیٰ قیادت وزیر ِاعظم اور اُن کی ٹیم سے ملتی اور طویل بحث ہوتی ہے کہ اب کیا کرنا چاہئے تو وزیر ِاعظم کے چہر ے سے اکتاہٹ کا اظہار نمایاں دکھائی دیتا۔ بہت سے وعدے وعیدکیے جاتے لیکن ان میٹنگز سے کچھ بھی برآمد نہ ہوتا۔ ایمانداری سے سوچیں کہ ایسے بے کیف امور، جیسا کہ پولیس میں اصلاحات، کریمنل جسٹس، فورنزک لیب، دہشت گردوں کا ڈیٹا اکٹھاکرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فعالیت کو مربوط کرنے میں کون دلچسپی لے ؟حکمرانوں کے پاس تو ان بوریت سے لبریز کاموں کے لئے وقت نہیں۔ ہاں اُن کی دلچسپی سمندر پار اکائونٹس، لندن جائیداد اور دیگر خطوں میں بزنس کو بڑھانے میں ہے، اور ہونی بھی چاہئے۔ کیونکہ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔
پاناما لیکس جسٹس عیسیٰ کی رپورٹ سے زیادہ ہنگامہ خیز تھیں۔ اگر بدعنوانی سے بوجھل پاناما گیٹ ایک تنکا بھی دہرا نہ کرسکا،تو محض نااہلی، ذمہ داری سے پہلو تہی اور کوتاہی کا احاطہ کرنے والی یہ رپورٹ کیا تیر مارلے گی؟پاکستان کی عملی سیاست اور گورننس کی کتاب میں ان کا شمار گناہوں میں نہیں ہوتا۔قانون کا حقیقت پسند پہلو صرف یہی کہ آپ پکڑے نہ جائیں، لیکن اب اس میں بھی ترمیم کی ضرورت ہے کیونکہ پاناما لیکس کوئی الزام نہیں، پکڑے جانے کے مترادف ہی ہے۔ لیکن آفرین ہے ’’کردار‘‘ کی مضبوطی پر!چہرے پر شرمندگی کا شائبہ تک نہیں۔ جہاں تک جوڈیشل کمیشن کا تعلق تو وہ بنتے رہتے ہیں، رپورٹس تیار کرتے ہیں جو فراموشی کی گرد میں چھپ جاتی ہیں۔ تاہم جسٹس عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ مختلف ہے۔ اس نے کافی گہرا کدال چلا دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف چوہدری نثار بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے، ’عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں‘ فوراً ہی پنجاب ہائوس میں اپنا پانی پت سجالیا اور رپورٹ کو ’’یک طرفہ‘‘ قرار دے ڈالا۔ وہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں یہی موقف اپنا چکے ہیں۔
کمیشن رپورٹ واضح طور پر بتاتی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں سے خطرہ ہے۔ تاہم یہ فوج کا مسئلہ ہے کہ وہ اس سے کیسے نمٹتی ہے۔ جہاں تک سویلینز کا تعلق تو وہ حسب ِمعمول کچھ بیانات وغیرہ دے کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجائیں گے۔ اگرفوج فاٹا میں تعینات ہے تو چکوال ضلع کا کوئی گائوں ایسا نہیں جس کے قبرستان میں شہدا مدفون نہ ہوں۔ اس پر وہ کہتے ہیں کہ فوج کا یہی کام ہے۔ تو کیا سویلینز کا کام صرف بزنس کرنا ہے ؟ کوئی اسکینڈل کا پانی ان کے پروں پر نہیں ٹھہرتا۔ جہاں تک چوہدری صاحب کا تعلق، تو ایک اور پریس کانفرنس کے لئے تیار ہوجائیں۔



.
تازہ ترین