• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز مشرف کی فوج کے ساتھ عدلیہ کو بھی متنازع بنانے کی کوشش

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کی متنازع باتوں سے پاک فوج ،حکومت اور خود پرویز مشرف کیلئے شرمندگی کی صورتحال پیدا ہورہی ہے، پرویز مشرف نے ایک بیان میں فوج کے ساتھ عدلیہ کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی ہے،سابق صدر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے ان کی بیرون ملک روانگی کیلئے جنرل راحیل شریف نے حکومت سے معاہدہ کیااور عدالتوں پر حکومت کی جانب سے ڈالے جانے والے دبائو کو ختم کروایا ،پرویز مشرف اس طرح فوج، حکومت اور عدلیہ تینوں کا کردار متنازع بنارہے ہیں، حکومت بتائے پرویز مشرف کی ان باتوں میں کتنی حقیقت ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پرویز مشرف نے انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ کارگل سے پہلے ان کے نواز شریف کے ساتھ دو ایشوز پر مسائل ہوئے، ان میں ایک ایشو وزیراعظم کی طرف سے دو میجر جنرلز کو فوج سے نکالنے کے احکامات تھے، حکومت نے پرویز مشرف کی عدلیہ والی بات کا جواب تو نہیں دیا لیکن دو میجر جنرلز کو ہٹانے والی بات کی سختی سے تردید کی۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پرویز مشرف سعودی فرمانروا سے تحائف قبول کرنے سے لے کر کارگل جنگ تک ایسے بیانات دے رہے ہیں جو پاکستان، پاک فوج اور حکومت کیلئے سوالات پیدا کررہے ہیں، پرویز مشرف کبھی کارگل پر کمیشن بنانے کی بات کرتے ہیں اور کبھی اس پر سوال اٹھادیتے ہیں، نواز شریف وزیراعظم بننے سے پہلے کہتے تھے کہ کارگل کے پیچھے صرف جنرل پرویز مشرف کی مرضی تھی اب انہیں حقائق کو سامنے لانا ہوگا، بھارت میں کارگل کے بعد تحقیقات کے بعد آرمی افسران کو سزائیں ہوئیں لیکن پاکستان کا معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ سچ وہ ہے جس سے سیکھا جاتا ہے، سچ ہی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہماری خامیاں اور خوبیاں کیا ہیں، اگر اپنے آپ سے سوال نہ کیا جائے تو پھر دنیا سوال کرتی ہے، اگر اپنے آپ کو سچ نہ بتایا جائے تو دنیا ایک سچ ایجاد کرلیتی ہے، اب اس سچ کو مسترد کرتے رہیں لیکن دنیا اس جھوٹے سچ کو سچ ماننے لگتی ہے، اگر ہم پاکستانیوں سے سچ نہیں بولیں گے تو دنیا اپنا سچ سامنے لائے گی، الزامات لگیں گے، سوالات اٹھیں گے اور پھر سازشیں ہوں گی، اس کا حل ایک ہی ہے کہ عوام کے سامنے سچ لایا جائے، اگر کوئی کمیشن بنتا ہے تو اس کی تحقیقات اور رپورٹ منظرعام پر لائی جائے لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسا نہیں ہوتا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ دیگر واقعات کی طرح ایبٹ آباد میں امریکی فوجی آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر بھی ایک کمیشن بنایا گیا لیکن اس کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں لائی گئی، امریکی آپریشن پر پوری دنیا میں پاکستان کی سبکی ہوئی کہ جس سب سے مطلوب دہشتگرد کودنیا دس سال تک ڈھونڈتی رہی وہ پاکستان کے محفوظ ترین علاقے سے ملا، ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ جاوید اقبال اب خود کمیشن کی رپورٹ سامنے لانے کا مطالبہ کررہے ہیں، نواز شریف وزیراعظم بننے سے پہلے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر لانے کا مطالبہ کرتے تھے لیکن اقتدار میں آکر یہ بات بھی اسی طرح بھول گئے جس طرح کارگل پر کمیشن بنانا بھول گئے، تین سال سے زائد ہوگئے لیکن وہ رپورٹ جس کے منظر عام پر لانے کا وہ مطالبہ کرتے تھے انہی کے پاس ہے لیکن باہر نہیں آرہی ہے ۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ حکومت نے پانچ اہم خودمختاراداروں اوگرا، نیپرا، پیپرا اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ایف اے بی کو ان وزارتوں کے ماتحت کردیا گیا جنہیں ریگولیٹ کرنے کا ان اداروں کے پاس اختیار ہوتا ہے، وفاقی حکومت نے صوبوں کی مخالفت کے باوجود یہ فیصلہ کیا ہے، اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے کو یکطرفہ قرار دیا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے وعدہ کچھ اور کیا تھا لیکن کر کچھ اور رہے ہیں،کچھ روز پہلے بڑی خاموشی سے کمپنی آرڈیننس میں تبدیلی کی گئی، کمپنی آرڈیننس 2016ء کے تحت وزیراعظم کو اختیار ہوگا کہ وہ سو کارپوریشنز کے سربراہان کو بورڈ آف ڈائریکٹرز سے بات کیے بغیر تبدیل کرسکتے ہیں، پانچ جون 2013ء کو وزیراعظم نے کہا تھا کہ سرکاری ، نیم سرکاری کارپوریشنز اور عام اداروں کے بورڈ آف گورنرز اور ان کے چیف ایگزیکٹوز کی تقرری ان کی صلاحیت، اہلیت، کام کرنے کی استعداد اور میرٹ کی بنیاد پر ہوگی۔ترکی اور جرمنی میں دہشتگردی کے واقعات پر تجزیہ کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ دنیا میں جب بھی دہشتگردی ہوتی ہے اشارہ مسلمانوں کی طرف ہوتا ہے ، بغیر تحقیق کے پاکستان کی طرف انگلیاں اٹھادی جاتی ہیں، ترکی میں روسی سفیر پر اور جرمنی میں ٹرک حملہ ہوا تو امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا الزام بغیر کسی تحقیق کے انتہاپسند مسلمان دہشتگروں پر لگادیا، جرمنی میں ٹرک سوار نے بارہ افراد کو کچل دیا اور ڈرائیور فرار ہوگیا، پولیس نے حملے کی جگہ سے دوکلومیٹر دور ایک مسلمان مشتبہ شخص نوید کو گرفتار کرلیا جس کی شناخت پاکستانی کی حیثیت سے ہوئی، لیکن پھر جرمن پولیس نے وضاحت کی کہ برلن حملے میں پاکستانی نوجوان ملوث نہیں ہے، نوید کو حراست میں لینا غلطی تھی، اس کے کسی دہشتگرد تنظیم سے تعلق کے ثبوت نہیں ملے اور نہ ہی کپڑوں پر خون کے دھبے تھے۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ کے بعد چوہدری نثار پر سیاسی دبائو بڑھتا جارہا ہے، اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے وزیرداخلہ سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، جب بھی چوہدری نثار کا پیپلز پارٹی سے تنازع شدت اختیار کرتا ہے تو وزیر داخلہ پیپلز پارٹی کے کچھ معاملات سامنے لانے کی دھمکی دیتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے، ایک بار پھر چوہدری نثار نے برسوں پرانے خانانی اینڈ کالیا کیس میں پیپلز پارٹی کا نام لے لیا ہے اور جلد حقائق سامنے لانے کی دھمکی دی ہے، چوہدری نثار کیلئے اب امتحان ہے کہ خانانی اینڈ کالیا میں جو کچھ ہوا اس کے حقائق عوام کے سامنے رکھیں۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ چوہدری نثار نے یہ بھی کہا کہ آئی جی سندھ ایماند ا ر افسر ہیں انہیں جبری رخصت پر بھیجا گیا ہے، چوہدری نثار کے اس بیان کے بعد اب وفاق پر ذمہ داری بن گئی ،دیکھنا ہوگا کہ وفاق خود پر دبائو کم کرنے کیلئے آئی جی سندھ پر سمجھوتہ کرلے گی یا چوہدری نثار ان کی تعریفوں پر قائم رہیں گے۔ترجمان وزیراعظم مصدق ملک نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف میں اخلاقی جرأت ہوتی تو جنرل راحیل شریف پر حکومت اور عدلیہ پر اثرانداز ہونے کا الزام اس وقت لگاتے جب وہ آرمی چیف تھے، جنرل راحیل شریف کی رخصتی کے بعد انہیں بدنام کرنا مناسب نہیں ہے، حکومت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالا ہوا تھا، سندھ ہائیکورٹ نے ای سی ایل میں پرویز مشرف کا نام ڈالنے کیخلاف فیصلہ دیا، سپریم کورٹ نے بھی جب فیصلہ کیا کہ پرویز مشرف کے آنے جانے میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے تو حکومت کے پاس عدلیہ کا فیصلہ نہ ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ وفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف نے کہا کہ پانچ ریگولیٹری اداروں کو وزارتوں کے ماتحت کرنے کا فیصلہ رولز آف بزنس کے تحت کیا گیا ہے، حکومت کے پاس پہلے ہی ان اداروں کا کنٹرول تھا، یہ ادارے کیبنٹ ڈویژن میں تھے جنہیں صرف دوسرے ڈویژن میں ٹرانسفر کیا گیا ہے، یہ بات غلط ہے کہ حکومت ان اداروں کے افعال پر اثرانداز نہیں ہوگی، حکومت نے ان اداروں کے صرف انتظامی معاملات سنبھالے ہیں، ان اداروں کے ریگولیٹری کردار کی ضمانت آج بھی قانون دیتا ہے ہمارا نندی پور پراجیکٹ پر نیپرا کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہے، نیپرا اب بھی ہمارا تجویز کردہ ٹیرف مسترد کرسکتی ہے۔  
تازہ ترین