20ویں صدی ختم ہوئے 16سال گزر چکے ہیں ۔ جنگل کے تمام جانور ، چرند پرند رات کے اندھیرے میں اپنے بادشاہ کے ارد گرد جمع ہیں ۔ یہ مجمع ہمیشہ لگتا رہتا ہے تاکہ جانور اپنی اپنی شکایتیں اور تکالیف اپنے بادشاہ کو بتا سکیں اور اس طرح بادشاہ اپنے مشیروں سے مشورہ کر کے ان کا تدارک کر سکے۔ اس دفعہ تمام جانوروں کو انسانوں سے شکایت ہے کہ پہلے تو یہ بتایا جائے کہ انسان جو اپنے آپ کواشرف المخلوقات کہتا ہے ، تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود آج ہم جانوروں سے بھی بد تر کیوں ہوچکا ہے ۔ کیونکہ پہلے وہ جنگل میں گھس کر ہم جانوروں کو مار ڈالتا تھا مگر آج اپنے ہی شہر میں اپنے ہی بھائی کو مارنے پر تلا ہوا ہے ۔ لہٰذا اب وہ ہم سے بھی گیا گزرا ہو چکا ہے ۔ باوجود اس کے کہ ہم جانور تعلیم سے اب بھی بہت دور ہیں ، مگر پھر بھی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ انسانوں سے بہتر ہونے کی بہت سی دلیلیں بھی دی گئیں مثلاً جانوروں نے متفقہ طور پر کہا کہ ہر مخلوق اپنے سے بہتر مخلوق سے متاثر ہو کر ان کے نام رکھتی ہے ۔ مگر آج تک کسی جانور نے خود کو انسان کہلانا پسند نہیں کیا۔ بلکہ انسانوں نے ان کے نام اپنائے مثلاً ہمارے جنگل کے بادشاہ کا نام سب سے زیادہ بہادر انسان اپنا رکھ کر فخر محسوس کرتا ہے ۔ اس موقع پر سب سے زیادہ احتجاج شیر کی مشیر اول لومڑی نے کیا ، لومڑی کا کہنا تھا کہ میرے مشورے ماننے سے جنگل میں امن ہے اور میں شیر کو صحیح صحیح مشورے دیتی ہوں ۔ مگر انسان جو خود مکر و فریب کی سیاست کرتا ہے تو اس کا نام میرے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے اور اس سے میرا نام بد نام ہوتا ہے ۔ ابھی یہ شکایتیں جاری تھیں کہ الو جو ابھی تک درخت پر بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا ، نیچے آیا اور کہا کہ انسانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ مجھ جیسے حقیر فقیر کو بھی معاف نہیں کیا اور جو منحوس ہو اس کو میرا نام دے دیا جاتا ہے ۔ وہ تو بھلا ہو مغربی ممالک کا کہ انہوں نے میرے نام کو عقل مندوں سے منسوب کر کے میرے لئے اطمینان کا سامان کر دیا۔ ورنہ میں تو کب کا خود کشی کر چکا ہوتا۔ اس موقع پر یکا یک ایک گدھا کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ میں نے ہمیشہ جنگل کے مفاد میں کام کیا ، مگر انسانوں نے میرا نام احمقوں کی فہرست میں شامل کر کے میری بے عزتی کی ہے ۔ میں مروت اور خاموشی سے انسانوں کے کام آتا ہوں ، مگر میری عزت خاک میں مل رہی ہے ۔ لہٰذا انسانوں کو اس عمل سے روکا جائے اور میری طرح بے لوث ایک دوسرے کے کام آنے کی روش اختیار کی جائے اور گدھا کہہ کر اپنے ہی بھائی کو شرمندہ کرنے کی روایت اب ختم ہونی چاہئے ۔
ابھی گدھا شکایات سیل میں اپنی شکایت نوٹ کرا کر بیٹھا ہی تھا کہ کتے نے زور زور سے بھونکنا شروع کر دیا کہ انسانوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ مجھ جیسے وفادار جانور کے نام کو ایک گالی بنا کر رکھ دیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری کرے جیسا کہ میں اپنے جنگل اور ساتھیوں کے ساتھ وفادار ہوں ۔ اس کے برعکس جو انسان بے وفائی ، غداری اور مکاری کر تا ہے اس کا نام بڑی حقارت سے کتا رکھ دیا جاتا ہے ۔ یہ میرے ساتھ بے انصافی ہے ۔ اتنا کہہ کر کتے نے پھر بھونکنا شروع کر دیا جس کو روکنے کے لئے سور جو بہت پہلے سے پیچ و تاب کھا رہا تھا یکدم اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں تمام دنیا میں مرغوب گوشت کی وجہ سے مشہور ہوں ۔ جناب والا کم از کم غیر مسلموں کو تو زیب نہیں دیتا کہ ایک طرف تو میرا گوشت مزے لے لے کر کھاتے ہیں اور دوسری طرف خاص طور پر امریکی ہر دوسرا برا جملہ میرے اور میرے آباؤ اجداد کے نام سے شروع یا ختم کرتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ یا تو میرا گوشت نہ کھائیں یا پھر میرا نام اپنے نام کی طرح احترام سے لیں۔ گیدڑ سور کے دلائل سن کر کھڑا ہوا ، اس کو شکایت تھی کہ جو انسان بزدل اور ڈرپوک ہو اس کا نام میرے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ میں بہادر ہوں ، دلیر ہوں جب ہی شہر کا رخ کرتا ہوں اور جب بھی خیر سگالی کے لئے جنگل سے شہر جاتا ہوں تو واپسی تقریباً ناممکن ہوتی ہے ۔ میرا عام مطالبہ ہے کہ میری امن پسندی کو بزدلی کا نام نہ دیا جائے اور میرے نام کے غلط استعمال کو روکا جائے۔
طوطے میاں سے نہ رہا گیا ، کہنے لگے کہ میں چھوٹا سا ایک خوبصورت پرندہ ہوں اپنی طوطی سے وفادار ہوں ، مگر مجھے انسانوں نے بے وفا مشہور کر رکھا ہے ۔ مجھے بتایا جائے کہ کتنے انسان مرد اپنی اپنی بیویوں سے وفا دار ہیں۔ میں نے تو انسانوں کے ہاتھوں ساری کی ساری زندگی اپنی طوطی کے ساتھ ایک معمولی پنجرے میں گزار دی ۔ مگر میں نے اپنی آنکھوں سے اس چھوٹے پنجرے میں دیکھا کہ انسان عالیشان کوٹھیوں میں رہنے کے باوجود اپنی بیویوں سے مسلسل بے وفائیاں کرتا رہا ، مگر نام میرا بدنام کرتا رہااور بے وفا انسان کو طوطا چشم کہہ کر اپنی بھڑاس نکالتا رہا۔ اب بتاؤ کہ میں بے وفا ہوں یا یہ کم بخت انسان ؟انسانوں سے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے سانپ نے شکایت کی کہ مجھے بھی انسان اچھے نام سے نہیں پکارتا ۔ حالانکہ میں کم از کم اپنے بل میں تو سیدھا داخل ہوتا ہوں اور اپنے ساتھیوں کا وفادار ہوں ۔ مگر یہ انسان خود غلط کام کرتا ہے ، اپنے ہی ساتھیوں کو ڈسنے کے لئے تیار رہتا ہے ۔ حتیٰ کہ خود جب چاہے کسی کے بھی گھر میں داخل ہو کر اس کو نقصان پہنچاتا ہے اور نام میرا بدنام کرتا ہے ، لہٰذا اس کو روکا جائے۔ ابھی یہ شکایتیں جاری تھیں اور بہت سے جانور بھی غصے میں بھرے بیٹھے تھے کہ سورج طلوع ہونے لگا ۔ جنگل میں صبح کا اجالا پھیلنا شروع ہو گیا اور دور سے انسانوں کی باتیں کرنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں تو جنگل کے بادشاہ نے اپنے مشیروں سے مشورہ کر کے اجلاس برخاست کرنے کا حکم دیا ، کیونکہ ان کو جن سے شکایتیں تھیں ان کی آوازیں قریب سے قریب تر ہو رہی تھیں اور خدشہ تھا کہ یہ انسان جو شہروں میں بھی پر امن نہیں رہے ، کہیں جنگل میں بھی ان جانوروں کے امن کو تہہ و بالا نہ کر دیں۔ لہٰذا تمام جانور خاموشی سے اپنی اپنی پناہ گاہوں کی طرف روانہ ہو گئے اور فیصلہ انسانوں پر چھوڑ گئے کہ وہ آنے والے سال کا کیسے استقبال کرتے ہیں ۔ البتہ ان کی یہ فریاد تھی کہ اپنے عیبوں کو ہمارے سر نہ ڈالیں اور ہمیں بد نام نہ کریں۔
.