• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری قائد شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے 8 سال بیت چکے ہیں لیکن ہمارا غم آج بھی تازہ ہے۔اتنا وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا لیکن ان کی 8 ویں برسی پر اس غم میں اس لئے بھی شدت پیدا ہوگئی ہے کہ جمہوریت اور عوام دشمن قوتوں کی تمام ترسازشوں کے باوجود شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی لازوال قربانی کی بدولت جمہوریت اور پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت نے اپنے 5 سال مکمل کئے تھے اور موجودہ حکومت کے بھی 4سال پورے کروائے ۔کل تک جو لوگ جمہوریت اور جمہوری حکومت کیخلاف سازشیں کرتے تھے اپنی حکومت کے دوسرے سال سے ہی متزلزل اور سازشوں کا شکار ہیں،اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں۔ان جمہوریت اور عوام دشمن قوتوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ اگر انہوں نے عوام سے جمہوری حق چھینا اور سیاسی اداکاروں کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا غم اشتعال اور غصے میں تبدیل ہوجائے گا۔ ہمیں آج بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی آئیں گی اور کہیں گی " ہمیں غربت دور کرنی ہے ،انسانوں میں سماجی فرق مٹانا ہے جس کیلئے تعلیم پر بہت کام کرناہے ،کیونکہ تعلیم یافتہ شخص ہی معاشرے سے ہر قسم کا فرق مٹا سکتا ہے۔اس ملک کے غریب عوام کو اگر ہم کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم زیور تعلیم سے آراستہ کردیں۔ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس سے دنیا کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، غریب بھی اسے آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں اس کے حصول کو غریبوں کیلئے آسان سے آسان بناناہوگا‘‘۔ہماری قائد شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے 5Eــ جن میں روزگار،تعلیم،توانائی،ماحولیات اور مساوات شامل ہیں ان پانچ نکات میں دوسرے نمبر پر تعلیم کورکھا اور اسے بہت اہمیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت نے ان کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے میٹرک تک کے طلبہ کو مفت تعلیم کے ساتھ مفت کتابیں دینے کے بعد اس کا دائرہ بڑھا کر انٹرمیڈیٹ تک کردیا اوراب گزشتہ 6 سال سے ہم اپنے صوبے کے طلبہ کو یہ سہولت فراہم کررہے ہیں۔ معاملات چلانے کا ہنرہم نے اپنی شہید قائد سے سیکھا۔ ہمیں وہ کہتی تھیں کہ ’’میں چاہتی ہوں کہ روزگار اور تعلیم پاکستان کے ہر بچے کو میسر آئے اور اب ہم اپنا آئندہ کا پروگرام اس طرح ترتیب دینگے کہ سندھ سمیت ملک کا ہر بچہ اس سے مستفید ہوگا‘‘۔ میں نے اپنے طویل سیاسی سفر میں اپنی شہید قائد کو ہر وقت ملک و قوم کی بھلائی کیلئے کام کرتے دیکھا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ہر وقت یہی کہتی تھیں کہ ہم سب کو ملکر ملک کے ذرے ذرے کو آفتاب بنانا ہے۔ انکی سیاسی تربیت اور انکی انتھک محنت کی وجہ سے میری ان کیساتھ عقیدت والی وابستگی تھی یہی وجہ ہے کہ جب وہ شہید ہوئیں تو مجھے ایسا لگا کہ میرے جسم میں جان نہیں، میرے پیروں تلے زمین نکل گئی اور مجھے ایسا لگا کہ میرے سر سے دنیا کی سب سے زیادہ شفیق ہستی کا سایہ اٹھ گیا ہے اور میں بے یارومددگار ہوگیا ہوں ۔ انسانی جذبات اور احساسات کا اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے جو اس مرحلے سے گزرا ہو۔ ہم نے انہیں پیار محبت سے کارکنوں کو سمجھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ کارکنان بھی اسی وجہ سے ان سے دلی لگائو رکھتے تھے اپنی شہید قائد کی ہر بات کو روحانی الفاظ سمجھ کر قبول کرتے تھے۔ حکومت کے دوران بہت سے لوگوں کی توقعات پوری نہیں کی جاسکتیں لیکن شہید قائد ہمیں ہمیشہ نصیحت کرتی تھیں کہ’’ اگر کسی کارکن کا کام نہیں ہوسکتا تو اسے پیار محبت سے تسلی دو گڑ نہیں دے سکتے تو گڑ جیسی بات کرو یہی کارکنان پارٹی کا سرمایہ ہیں ان کی عزت کرو‘‘۔ آج ہم ان کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ہر کارکن کی بات سنتے ہیں۔ میرے گھر اور دفتر میں کام کروانے کیلئے آنے والوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں اور ہم ہر ایک کا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تسلی دیتے ہیں کیونکہ یہی شہید قائد کی ہمیں نصیحت تھی شہید بے نظیر بھٹو کا محبوب نعرہ"آج بھی بھٹو زندہ ہے" ہمیشہ فلک شگاف آوازمیں گونجتا رہے گا اور بھٹو ازم کے خاتمے کا خواب دیکھنے والوں کو نہ صرف مایوسی ہوئی ہے بلکہ ان کے حوصلے بھی پست ہوں گے۔یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کو ہم سے بچھڑے ہوئے8 برس ہوگئے لیکن ہمیں آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو آج بھی ہمارے درمیان موجودہیں، ان کے نظریہ پر آج بھی جیالے اپنی جان و مال قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔ شہید بے نظیر بھٹو کی سیاست کے انداز بھی نرالے اور پائیدار تھے۔ انہوں نے غیر جمہوری سیاست کے ظالمانہ انداز کو اس وقت سے سمجھ لیا تھاجب 1968 کے دوران جنرل ایوب کے ہاتھوں اپنے عظیم والد کی میانوالی اور ساہیوال جیلوں میں نظربندی کو دیکھا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید اس وقت اے لیول امتحان کی تیاری میں مصروف تھیں اوربعد میںہارورڈ اورآکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرکے پاکستان آئیںتو1977 ء کے دوران ایک اور فوجی ڈکٹیٹر نے ان کے والدمحترم کیساتھ احسان فراموشی کی تاریخ رقم کی کیونکہ بھٹو نے جنرل ضیا کو 7سینئر کے اوپر جنرل بنایاتھا لیکن اسی احسان فراموش نے راتوں رات جمہوری حکومت پر قبضہ کرکے ایک عوامی منتخب وزیراعظم کواپنے ماتحتوں کے ہاتھوں گرفتار کرایا جبکہ محترمہ شہید کو بھی ان کی والدہ نصرت بھٹو کے ہمراہ سہالا جیل میں پابند سلاسل کرکے تشدد کیا گیا۔انکے والد جسکودنیا عظیم جمہوریت پسند،ایشیا کے عظیم رہنماکے طور پر پہچانتی تھی ان کو تختہ دار پر چڑھادیا گیا، اس صدمے میں نڈھال بے نظیر بھٹو کو غموں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا،اسی دوران انھوں نے اپنے نوعمر بھائی شاہنواز بھٹو کا فرانس سے آیا ہوا جسد خاکی اورپھر اپنے جوان بھائی میر مرتضی بھٹو کا جسد خاکی دیکھنے کا درد بھی سہا تھا۔ بلاول، بختاور اور آصفہ کو انگلیوں سے پکڑ کر مسلسل9 سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید اپنے جیون ساتھی آصف علی زرداری کو دیکھنے والا منظر بھی انہی کے ہی نصیب میں تھا تو دوسری جانب اپنی بزرگ والدہ پر لاٹھیاں برسنے اور سر سے لہو ٹپکنے والے دردناک منظر دیکھنے سمیت خود کو جیلوں کی صعوبتیں، نظربندیاں اور جلاوطنی نے بھی ان کو ایک چٹان کی طرح مضبوط اور کندن بنادیا تھا اور وہ ملک کی ترقی اور غریب عوام کو غربت اور مفلسی کی دلدل سے نکالنے کی راہ پر چل رہی تھیں۔ آٹھ برس گزرنے کے بعد بھی شہید بے نظیر بھٹو کا نعرہ"زندہ ہے بھٹو ، زندہ ہے" مخالفین کی سماعت پر وار کررہاہے۔

.
تازہ ترین