قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کی آج 88ویں سالگرہ ہے۔ پارٹی کارکن ہر سال اپنے عظیم قائد کی سالگرہ مناتے ہیں ان سے محبت و عقیدت اور خوشی و مسرت سے سرشار اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ جناب بھٹو کے عدالتی قتل کو 36برس ہو چکے ہیں۔ وہ آج بھی عوام بالخصوص پارٹی کارکنوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے زندہ ہونے کی یہ شہادت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ان کا نام مٹایا نہیں جا سکا۔ وہ قومی سیاسی افق پر ایک روشن ستارے کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی وفاق کی علامت ہے اور چاروں صوبوں کی زنجیر کا نقش بدستور قائم ہے اور اس کے بانی جناب بھٹو عوام کی نظروں میں احترام اور محبت کا محور ہیں۔آج سیاست اور کرپشن لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں لیکن جناب بھٹو پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہیں ہے۔ وہ ایک صاف ستھرے ایماندار شخص کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے ملک و قوم کی خدمت نیک جذبے سے کی اور مایوس قوم کو حوصلہ دیا۔ بھارت کے ساتھ آبرومندانہ طور پر شملہ معاہدے کے تحت پاکستان کے مقبوضہ علاقے واپس لئے اور جنگی قیدی رہا کرائے۔ شملہ معاہدہ کے بارے میں بے تحاشا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اس میں کوئی خفیہ شق شامل ہے جس میں پاکستان کے قومی مفاد پر سمجھوتہ کیا گیا ہے اور جنرل ضیا کے دور میں اس الزام کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ مسز اندرا گاندھی سے اپنے انٹرویو میں شملہ معاہدے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے جواب دیا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے کسی ایسے معاہدےکے راز کو افشاکیوں نہیں کیا اور اس کا ثبوت کیوں پیش نہیں کیا۔ بھارت کے وزیرخارجہ اٹل بہاری واجپائی اس بارے میں کیوں خاموش ہیں جو جنرل ضیا کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔جنرل ضیا کے دورِ آمریت میں جناب بھٹو کے خلاف نفرت کا طوفان کھڑا کیا گیا اور ان کی کردار کشی کے لیے ایسے بے رحمانہ جھوٹ اختراع کیے گئے جو صرف شیطانی ذہن کی پیداوار تھے۔ مقبوضہ اخبارات اور جرائد کے صفحات بے دریغ جھوٹ سے سیاہ کیے گئے۔ بعض حلقوںاور عناصر میں یہ آتش نفرت ابھی تک سُلگ رہی ہے اور وہ اس کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس کے برعکس غریب عوام اور پارٹی کارکنوں کے دل جناب بھٹو کی محبت میں اس طرح دھڑکتے ہیں اور ان کے خلاف نفرت کی چنگاری محبت کے انمٹ جذبات کو بھسم نہیں کر سکی کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جناب بھٹو کا عدالتی قتل انصاف کے نام پر سیاہ داغ اور ایک کینہ پرور منصف کی ہوسِ انتقام کی نفرت انگیز کہانی ہے۔
جناب بھٹو کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈا کا جواب انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں اپنی دستاویز میں ان الفاظ میں دیا ہے:
’’کیا دھوکہ دہی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کہ صرف ایک شخص سے خدا کی طرف سے ودیعت کردہ اور عوام کی طرف سے تفویض کی گئی عزت اور صلاحیتوں کو چھیننے کے لیے جھوٹ کا پیغمبر، دھوکہ دہی کا معمار،دغابازی کا استاد، شرکا سوداگر ، گمراہی کا لبادہ اوڑھ لینا ضروری ہے۔ آج پاکستان کے عوام اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں ان کے مسائل پیچیدہ اور دکھ انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ وہ میرے لیے بے قرار ہیں وہ میری قیادت کی ضرورت کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ میں ان کی کمی محسوس کر رہا ہوں۔ وہ تکلیف میں ہیں اور ان کے لیے میں درد و کرب کا شکار ہوں۔‘‘
اسی دستاویز میں پی پی پی کے بارے میں جناب بھٹو رقم طراز ہیں:
’’میں نے یکم دسمبر1967ء کو پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔ یہ اعزاز بھی مجھے حاصل ہے کہ میں پارٹی کا چیئرمین ہوں۔ میری قیادت میں پارٹی ایک کامیابی سے دوسری کامیابی کی طرف گامزن رہی ہے اور اس نے فتح پر فتح حاصل کی۔ یہ کوئی راز نہیں کہ عوام کے ساتھ براہ راست اور پارٹی کے ذریعے رابطہ قائم ہے۔ عوام آزمائش کے ان تاریک لمحات میں مجھ سے کنارہ کش نہیں ہو سکتے۔1958ء سے میرا نام پاکستان کی تاریخ کے ہر صفحے پر لکھا ہوا ہے۔ پاکستان کے جوان اپنی امنگوں کے ساتھ مجھے یاد رکھیں گے کہ میں نے انہیں جواں سال قیادت دی۔ پاکستان کی خواتین مجھے ہمیشہ مہربانی سے یاد رکھیں گی کہ میں نے انہیں آزادی دینے کی کوشش کی۔ کسان مجھے جوش و جذبے سے یاد رکھیں گے کہ میں نے جاگیرداری کی زنجیریں توڑ دیں۔ محنت کش طبقے مجھے محبت سے یاد رکھیں گے کہ میں نے انہیںقومیائی صنعتوں کا مالک بنایا۔ اقلیتیں مجھے ہمیشہ یاد رکھیں گی کہ میں نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔وہ بے نام مجھے یاد رکھیں گے کہ میں نے پانچ مرلہ اسکیم کے ذریعے نام دیا۔ وہ بے نام چہرے اس لیے مجھے یاد رکھیں گے کہ کچی آبادی میں انہیں مالکانہ حقوق دے کر چہرے دیئے۔ جتنا جی چاہے کوئی کوشش کر لے۔ مسلح افواج میری منفرد خدمات کو فراموش نہیں کر سکتیں کہ میں نے ان کے مجروح وقار کو بحال کیا۔ میں نے ایک بے فولاد ڈھانچے کو فولادی بنایا۔ میں نے قوموں کی برادری میں پاکستان کا وقار بلند کیا۔‘‘
جناب بھٹو لکھتے ہیں:
’’جب میں پاکستان کا صدر بنا۔ شمالی علاقوں کے مورچوں میں ہمارے فوجیوں کے پاس کمبل تک نہیں تھے۔ اسکردو کے محاذ پر بھارتیوں نے جھوٹی ہمدردی اور پروپیگنڈے کی غرض سے جنگ بندی لائن کے پار سے ہمارے نوجوانوں کے لیے کمبل پھینکے اور جب مجھے زبردستی محفوظ پاکستان ، باعزت وباوقار پاکستان او رایک ایسے پاکستان کے چارج سے ہٹایا گیا جو خوراک میں خودکفیل ہو چکا تھا۔ تو میرے پاس ان مسلح افواج کا چارج بھی نہیں رہا۔ جن کو میں نے جدید ہتھیاروں اور میزائلوں کے ساتھ بہترین جنگی قوت بنایا۔‘‘
اسی دستاویز میں جناب بھٹو نے اپنے عالمی وژن کا ان شاندار الفاظ میں ذکر کیا:
’’انقلاب ایک خوبصورت لفظ ہے۔ انقلاب تاریخ کی قوسِ قزح ہے۔ انقلاب کا مطلب ہے ناانصافی اور عدم مساوات کا خاتمہ۔ اس کا مطلب ہے استحصال اور آمریت کا خاتمہ۔ انقلاب کا مطلب ہے خواتین کی نجات اور نوعِ انسانی کی آزادی۔ انقلاب کا مطلب ہے جمہوریت پسند عوام کا حقِ خودارادیت۔ اس کا مطلب ہے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ۔ اس کا مطلب ہے فلسطینی ریاست کا قیام۔ اس کا مطلب ہے تیسری دنیا کی مجبور قوموں کے لیے انصاف کے اصولوں پر مبنی نیا عالمی اقتصادی نظام۔‘‘
جناب بھٹو نے اپنے بارے میں ان الفاظ سے دریا کو کوزے میں بند کر دیا:
’’میرا مقام ستاروں پر رقم ہے۔ میرا مقام بندگانِ خدا کے دلوں میں ہے۔‘‘