• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصی تحریر…نازیہ بی بی

کسی بھی ملک کے بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد اس ملک کی خارجہ پالیسی ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی میں ان تمام صلاحیتوں او ر طریقہ کار کو بروئے کار لایا جاتا ہے جن کی بدولت نہ صرف ملک کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے بلکہ دوسرے ممالک پر اس انداز سے اثر انداز ہوا جاتا ہے کہ ان سے بہتر سفارتی ، سیاسی اور معاشی تعلقات کی بنا پر ملکی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن قیام پاکستان کے فور ا ً بعد بھارت سے کشیدگی اور بین الاقوامی سیاسی منظر نامے نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کافی حد تک امریکی بلاک سے الحاق کرنے پر مجبور کیا۔ سیٹو اور سینٹو ایسے معاہدے تھے جن کی بدولت پاکستان کو شمال مشرقی ہمسایہ سو ویت یونین کی ناراضی مول لینی پڑی۔ پاکستان امریکہ پالیسی آج تک پاکستان کے خارجہ تعلقات پر اثر انداز ہو رہی ہے کیونکہ اس کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو معاشی طور پر ہوا۔ پاکستان نے معاشی طور پر خود مختاری کے اصول کو پس پشت ڈالتے ہوئے امریکی امداد کی خاطر امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرنا شروع کر دیا(1979-1989)میں جب امریکہ نے روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے پاکستان کی بھر پور امداد حاصل کی اور روس کو افغانستان سے نکالنے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن پاکستان میں اندرونی سطح پر بے شمار مسائل پیدا کر دیئے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب سے پاکستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی جیسے گھمبیر معاشرتی مسائل نے جڑ پکڑی اور پاکستان دہشت گردوں کے خلاف یہ جنگ آج تک لڑ رہا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں شدت پسندی کے جن کو قابو کرنے کی طرف خاطر خواہ اقدام کیے گئے ہیں جن کے معاشرے پر مثبت اثرات دیدنی ہیں۔پاکستان کو سفارتی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنے کی بڑی وجہ بھار ت رہا ہے۔ امریکہ کے لیے بھارت اور پاکستان دونوں اہم ممالک ہیں لیکن امریکہ کا جھکائو بھارت کی طرف ہمیشہ سے رہا ہے اور امریکہ نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ دوسرا بھارت اور امریکہ ہمیشہ اسلام مخالف رہے ہیں۔ تاہم پاکستان نہ صرف مشرقی ہمسایہ بھارت بلکہ شمال مغربی ہمسایہ افغانستان کی بھی امریکہ سے گٹھ جوڑ کا نقصان اٹھا تا رہا ہے۔ امریکہ میں 9/11کے واقعے کے بعد پاکستان کا کردار بین الاقوامی سطح پر ابھر کر سامنے آیا لیکن اس کو قسمت کی ستم ظریفی کہہ لیجئے یا ملک دشمن قوتوں کا الحاق کہ دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں پاکستان کے کردار کو اتنی پزیرائی نہیں مل سکی جتنی ملنی چاہیے تھے۔ اس کی بدولت بھارت اور افغانستان پاکستان کے کردار کو سرا ہنے کی بجائے اسے دہشت گردی کا ٹھکانہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم گزشتہ عرصے میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے ضرب عضب آپریشن اور کراچی آپریشن کیا گیا اور ضرب عضب کو دنیا کے کامیاب ترین ملٹری آپریشنز میں بھی شمار کیا گیا اس کے باوجود بھارت نے اڑی حملے کا ڈرامہ رچا کر نہ صرف پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ قرار دیا بلکہ پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کیا جس کی بدولت سارک کانفرنس ملتوی ہوگئی۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایک بار پھر بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور بھارت میں منعقد ہونے والی کانفرنس ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کی ۔اس کانفرنس کے دوران افغانستان اور بھارت کا مکار چہرا ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا۔
تاہم اس تمام نا امیدی کے ماحول میں بھی پاکستان نے اپنے سفارتی تعلقات دیگر ہمسایہ ممالک چائنہ، روس ، ایران اور ترکی سے بہتر بنانے کی کوششوں کو جاری رکھا۔ یہ اس بہترین سفارت کاری کی بدولت ہے کہ بھارت چائنہ اور پاکستان کے 41 بیلن ڈالر کے منصوبے سی پیک سے خائف نظر آتا ہے۔ 1.17 CASA-1000بلین امریکی ڈالر کا منصوبہ ہے جو وسطی ایشیاء کی ریاستوں، پاکستان اور افغانستان کے باہمی مفادات پر مبنی منصوبہ ہے۔ یہ توانائی کے میدان میں علاقائی تعاون کا پہلا منصوبہ ہے جسکی بدولت پاکستان اور افغانستان میں بجلی اور توانائی کی کمی کو پورا کرکے معاشی ترقی کی جانب سفر بڑھا یا جائے گا۔
امریکہ نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح کی وجہ صرف اس کی معاشی ترقی ہے اور دونوں ممالک کے آپس کے معاشی تعلقات ہیں۔ موجودہ دور میں جہاں پاکستان اپنے ہمسائیہ اور اسلامی ممالک سے باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے کوشاں ہے وہاں امریکہ کو یہ بار آور کرانا ضروری ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری میں کردار ادا کرے۔ اس ضمن سر تاج عزیز نے اقوام متحدہ کے سیکڑری جنرل کے نام خط لکھا ہے جس میں بھارت کے پاکستان میں مداخلت اور بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی سے لیکر اس کے حل کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تاکہ پاکستان کے علاوہ پورے خطے میں پائیدار امن قائم کیا جاسکے۔



.
تازہ ترین