• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف ‘میاں نوازشریف نے ہی بنایا تھا لیکن اندر سے اب وہ ان کے بار ے میں کم وبیش وہی جذبات رکھتے ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے بارے میں رکھتے ہیں ۔ میاں صاحب کسی جنرل کو آرمی چیف کے منصب پر فائز کرنا ‘ ان پر اپنا عظیم احسان سمجھتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ آرمی چیف بننے کے بعد بھی ان کی اس طرح تابعداری کرے جس طرح کہ ممنون حسین صاحب وغیرہ کیا کرتے ہیں ۔ میاں صاحب سمجھتے ہیں اور شاید درست سمجھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کوان کے چنگل سے جنرل راحیل شریف نے نکالا۔اسی طرح بظاہر تو دھرنوں کے دوران جنرل راحیل شریف نے براہ راست مداخلت سے گریز کرکے بظاہر احسان کیا اور حکومتی ترجمان ظاہراً انہیں خراج تحسین بھی پیش کرتے رہے لیکن میاں صاحب ناراض ہیں کہ انہوں نے اپنے ادارے کے بعض لوگوں کو دھرنوں کی اسکرپٹنگ اور سپورٹ سے روکاکیوں نہیں۔ اگرچہ میاں صاحبان نے فوج یا رینجرز کو پنجاب میں آپریشن کرنے نہیں دیا لیکن ا س سلسلے میں جنرل راحیل کی طرف سے محض کوشش پر بھی وزیراعظم صاحب شدید برہم رہے۔ میاں صاحب کو یہ بھی احساس ہے اور شاید ان کایہ احساس درست ہے کہ جنرل راحیل شریف نے اپنے دور میں انہیں اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی چلانے نہیں دی بلکہ داخلی سلامتی پالیسی کا مہار بھی اپنے ہاتھ میں رکھا۔ برہمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جنرل راحیل شریف نے کرپشن اوردہشت گردی کو ایک دوسرے سے نتھی کرنے کی کوشش کیوں کی۔ میاں نوازشریف اور ان کے قریبی ساتھیوں کا خیال ہے اور وہ اس کا اظہار تسلسل کے ساتھ نجی محفلوں میں کرتے رہے کہ پانامہ کو اپوزیشن اور میڈیا کا نمبرون ایشو بنانے کے پیچھے بھی جنرل راحیل شریف اور ان کے ساتھیوں کا ہاتھ ہے اور یہ کہ اسلام آباد بند کرنے کے لئے عمران خان صاحب کو ترغیب بھی جنرل راحیل کے حامی بعض افراد کی طرف سے ملی تھی ۔ سب سے زیادہ تکلیف وزیراعظم کو شکریہ جنرل راحیل شریف کے نعرے سے پہنچتی رہی اور میڈیا میں جس طرح راحیل شریف کو ہیرو اور وزیراعظم کو زیرو بنانے کی مشق جاری رہی ‘ اس کی وجہ سے ایک دن کے لئے بھی وہ حسب منشااقتدار کا لطف نہ اٹھاسکے۔ چنانچہ اب وہ حسب عادت و روایت‘ جنرل راحیل شریف کے ساتھ حساب برابر کرنے لگے ہیں جس کا آغاز ان کے عرب اتحاد میں رول سے متعلق حکومتی موقف بلکہ واردات سے ہوگیا ہے ۔ جنرل راحیل شریف کا امیج گزشتہ چند روز میں جس طرح خراب کیا گیا وہ اپنی جگہ لیکن مجھے یقین ہے کہ اب حکومتی سرپرستی میں ہی ایسی فضا بنائی جارہی ہے کہ وہ یہ منصب قبول ہی نہ کرسکیں ۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی صاحب اٹھ کرایک ڈگڈگی بجا دیتا ہے اور پھر تحقیق کئے بغیر ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے اس ڈگڈگی کو بجانا شروع کردیتا ہے ۔ کوئی تحقیق کرکے ٹھنڈے دل کے ساتھ حقائق تک پہنچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا ۔ یہی رویہ ہم نے جنرل راحیل شریف کی عرب اتحاد میں ذمہ داری سے متعلق اپنا لیا ہے ورنہ تو حقائق کچھ اور ہیں ۔
حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ جیسے جنرل راحیل شریف کے عرب اتحاد میں بطور کمانڈر تعیناتی سے اس میں پاکستان کی شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ ہوگا حالانکہ پاکستان کب کااس اتحاد کا حصہ بن چکا ہے اور یہ فیصلہ کسی اور نے نہیں بلکہ میاں نوازشریف کی حکومت نے ہی کیا ہے ۔ حکومت پاکستان نے معذرت (میڈیا اور پارلیمنٹ کے دبائو کے بعد) یمن فوج بھیجنے سے کی تھی نہ کہ مذکورہ اتحاد میں شامل ہونے سے ۔ اگر میرا دعویٰ غلط ہے تو وزیراعظم ہائوس یہ بیان جاری کردے کہ وہ اس اتحاد کا حصہ ہے اور نہ بنے گا۔ اگر ایسا کوئی تحریری بیان جاری ہوا تو میں معافی مانگنے میں دیر نہیں لگائوں گا۔ میرا دعویٰ ہے کہ پاکستان نہ صرف اس اتحاد کا حصہ بن چکا ہے بلکہ اس حوالے سے دونوں ملکوں کے مابین خط و کتابت بھی ہوچکی ہے ۔ وزیراعظم اور سعودی حکمران کئی بار اس اتحاد کی تفصیلات اور اس میںپاکستانی کردار پر بھی مذاکرات کرچکے ہیں ۔ جنرل راحیل شریف کے رول کی بات چیت بھی ایک سال سے چل رہی ہے اوروزیراعظم اس پر سعودی حکمرانوں اور خود جنرل راحیل شریف سے بھی کئی بار بات کرچکے ہیں ۔ اتحاد میں پاکستان کے رول کو جنرل راحیل شریف نے نہیں بلکہ حکومت پاکستان نے سعودی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ طے کرنا ہے ۔ اب اگر یہ جرم ہے تو اس جرم کا ارتکاب جنرل راحیل شریف سے پہلے حکومت پاکستان کرچکی ہے اور اگر ایران نے ناراض ہونا ہے تو وہ ناراض ہوچکا ہے کیونکہ جنر ل راحیل شریف نہ جائیں تو بھی پاکستان اس اتحاد کا حصہ ہے۔جو لوگ ایران کی ناراضی سے ڈرا رہے ہیں ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ایران پہلے سے ناراض ہے اور اسی لئے وہ ہندوستان کے ساتھ قربتیں بڑھانے میں آخری حدوں تک جارہا ہے ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ یہ اتحاد بظاہر سعودی بنارہے ہیں لیکن اصل سرپرستی امریکہ کررہا ہے ۔ حکومت پاکستان اور دیگر ممبر ممالک کے ساتھ سعودی عرب نے جو خط و کتابت کی ہے ‘ اس میں بھی امریکی کردار کا ذکر موجود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اومان جیسے ملک ‘جہاں شیعہ اور ابازی بڑی تعدادمیں بستے ہیں اور جس کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں‘ بھی ا س اتحاد کا حصہ بن گئے ہیں۔ اب جس اتحاد کو امریکہ کی شہہ پر بنایا جارہا ہو‘ جو سعودی عرب کی قیادت میں بن رہا ہو اور جس میں مصر ‘ ترکی اور اومان جیسے ممالک بھی شامل ہوں‘ کیا ا س میں شمولیت سے میاں محمد نوازشریف معذرت کرسکتے تھے ۔ اگر سعودی عرب یو اے ای کے ذریعے آصف زرداری کو کہلوادیں تو کیا وہ پھر مخالف رہ سکیں گے ؟۔ اگر امریکی برطانیہ کے ذریعے عمران خان کو کہلوادیں تو کیا وہ پھر مخالفت کی ہمت کرسکیں گے ؟۔ اسی طرح اگر عرب ممالک جماعت اسلامی اور جے یو آئی کا چندہ بند کرادیں تو کیا ان کے رہنما مخالفت میں زبان کھول سکیں گے ۔
جو عرب اتحاد بن رہا ہے اور جس میں پاکستان روز اول سے ممبر بن چکا ہے ‘ بنیادی طور پر ایک اسٹرٹیجک اتحاد ہے جسے امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس کے فیصلے نہ تو جنرل راحیل شریف یا کوئی اور کمانڈر کریں گے اور نہ صرف سعودی حکمران۔ فیصلہ ساز فورم وزرائے دفاع پر مشتمل ڈیفنس منسٹرز کونسل ہوگی۔ گویا اگر جنرل راحیل شریف نے عہدہ قبول بھی کیا تو پاکستان کی نمائندگی وہاں خواجہ آصف اور پاکستانی کردار کا تعین وزیراعظم نوازشریف یا جنرل قمر باجوہ کریں گے نہ کہ جنرل راحیل شریف۔ میری معلومات کے مطابق اتحاد کے مقاصد اور اسٹرکچر کو مارچ تک آخری شکل دی جائے گی اور ان کا تعین ممبر ممالک کی حکومتوں کی مشاورت سے کیا جا ئے گا۔ سعودی حکومت نے اپنی طرف سے جنرل راحیل شریف کو منصب کی پیش کش کی ہے اور ذرائع کے مطابق انہوں نے اصولی آمادگی ظاہر کی ہے لیکن ابھی ان کے عہدے کا نام بھی طے نہیں ہوا۔ سعودی حکومت اپنے اتحادیوں کے مشورے سے مارچ تک اس کو حتمی شکل دے گی ۔ اس کے بعد اگر ڈیل طے پاتی ہے تو جنرل راحیل شریف حکومت پاکستان اور فوج سے باقاعدہ اجازت کے بعد ہی وہاں جاسکیں گے۔
حکومت پاکستان اجازت نہ دے تو جنرل راحیل شریف کبھی نہیں جاسکتے۔ گویا فیصلہ بنیادی طور پر جنرل راحیل شریف نہیں بلکہ میاں نوازشریف کے ہاتھ میں ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ میاں صاحب دوبارہ ایک تیر سے دو شکار کررہے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ سعودیوں کو بھی خوش رکھیں اور ایسی فضا بنادیں کہ جنر ل راحیل شریف کے لئے جانا بھی ممکن نہ رہے ۔ پھر وہ سعودیوں سے کہیں گے کہ میری حکومت تو آپ کے اتحاد میں شامل ہے ۔ مجھے کوئی مسئلہ ہوتا تو آپ کے اتحاد میں شامل نہ رہتا ۔ میں نے تو جنرل راحیل کو بھی نہیں روکا اور بہت پہلے ان کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیا تھا لیکن اب کیا کریں وہ خود نہیں آرہے ہیں یا ان کا ادارہ ان کو آنے نہیں دے رہا۔ اسے کہتے ہیں شریفانہ سیاست، جس کی زد میں اب کی بار پاکستان کے مفادات کے ساتھ ساتھ ایک اور شریف بھی آگئے ہیں۔



.
تازہ ترین