• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احتساب، شفافیت اور اوپن گورنمنٹ… خصوصی مراسلہ …محمد یونس قاسمی

SMS: #KMC (space) message & send to 8001
کوئی بھی اجتماعی عمل اور معاملہ احتساب اور شفافیت کے بغیر درست طریقے سے انجام نہیں پاسکتا۔ہمارے مذہب اسلام نے بھی احتساب اور معاملات میں شفافیت کو انتہائی اہمیت دی ہے۔ اسلام کا نظام عدل اجتماعی احتساب و شفافیت کا مکمل آئینہ دار ہے اور اس کے عمل کے بغیر اسلام میں آگے بڑھا ہی نہیں جاسکتا۔ اسلام کا نظام احتساب اس قدر کڑا اور واضح ہے کہ اس میں کوئی ابہام ہے اور نہ ہی کسی کو استثناء حاصل ہے۔اسلامی نظام ِاحتساب کے چند اصول یہ ہیں ۔ احتساب سب کا ہو، یکساں ہو، محتسب خود بھی قابل احتساب ہو، احتساب کا عمل فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیز ہو، سرعام ہو اور اس کے عمل کی انجام دہی کے دوران قانونی تقاضوں کی پاسداری کی گئی ہو۔جلدبازی،ناکافی شہادت گمان یا شک کی بنیاد پر اسلام میں کسی کے احتساب کی اجازت نہیں ہے۔اسلامی تعلیمات سے عیاں ہے کہ بے لاگ احتساب کے بغیر عدل کا قیام ناممکن ہے۔ اسلامی نظام احتساب میں کوئی بھی احتساب کے عمل سے بالاتر نہیں ۔ جو جس مقام و منصب پر ہے اس کے احتساب کے لئے نظام اور ایک میکنزم موجود ہے۔احتساب کا عمل محض سزا کے لئے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود قابل احتساب امور کو معاشرے میں کم سے کم درجہ تک لے جانا بھی ہے،اسی لئے احتساب کو سبق آموزاور عبرت انگیزبنایا گیا۔ چھپ کر سزا دینے سے جرم تو ضرور اپنے منطقی انجام کو پہنچ پائے گا لیکن معاشرہ اس نظام کے ثمرات سے محروم رہے گا۔ آج پاکستان کو جن اہم اور بڑے مسائل اور بحرانوں کا سامنا ہے،ان تمام کی بنیاد شفافیت اوراحتساب کی عدم موجودگی ہے۔ آج کرپٹ اور بدعنوان قوموں میں عالمی سطح پر ہمارا 126واں نمبر ہے۔ہمارے تمام مسائل کے سوتے کرپشن سے ہی پھوٹتے ہیں، ملک میں دہشت گردی ہے، بجلی، پانی اور گیس کی قلت ، اداروں میں فرائض سے غفلت ہے یا کوئی بھی مسئلہ ہے تو اس کی تہہ میں یہی کرپشن کا مرض پوشیدہ ہے اور کرپشن کے فروغ پانے کی بنیادی اور اہم وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں کڑے اور بے لاگ احتساب اور شفافیت کا فقدان ہے۔اس سلسلے میںضروری ہے کہ احتسابی نظام اتنا شفاف، غیر جانبدار اور اعلی سطحی ہوکہ اس کے خوف سے ہی کرپشن کا ارتکاب نہ ہوسکے۔جبکہ کرپشن کے نقصانات کے بارے میں عوام میں آگاہی اور شعور بیدار کرنا بھی ضروری ہے۔عوام کو اس بات کی ترغیب دی جانی چاہئے کہ وہ بدعنوانی کے خلاف معلومات فراہم کریں یا شکایات درج کرائیں۔اسی طرح سرکاری مناصب پر اہل اور دیانت دارافراد کی تعیناتی ہی اداروں کی ساکھ بہتر بناسکتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میںمیرٹ پر عمل نہیں کیا جاتا اور نااہل افراد کو اہم منصب پر بٹھا کر ملک و قوم کے ساتھ سنگین مذاق کیا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ سرکاری منصب پر اہل اور دیانت دار افراد کو متعین کیا جائے ۔’’اوپن گورنمنٹ‘‘ ایک جدید ڈاکٹرائن اور ایک فلسفہ عمل ہے۔ اس کے تحت وہی حکومت اوپن گورنمنٹ کہلاسکتی ہے جو ریاست کے تمام شہریوں کو ان کے جملہ شہری اور انسانی حقوق بہم پہنچائے۔دیکھا جائے تو یہ فلسفہ بھی ہمارے ہاں مفقود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے تمام شعبوں میںاحتساب اور شفافیت کے تصورات کو تعلیم، تلقین اور تاکید کے ساتھ رائج کردیا جائے۔گزارش کا مقصد یہ ہے کہ بیورو کریسی کا تمام نظام ِکار مکمل طور پر ترقی یافتہ جمہوری قوموں کے نہج اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ٹرانسپیرنٹ ہونا چاہئے۔
تازہ ترین