• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حریت فکر مجھے ہے حکم اذاں … شفیق الرحمن شاہین

ہمارا دین ہمیں حریت فکر، غیرت اور مساوات کی تعلیم دیتا ہے ، ہمارے نزدیک فضیلت نہ خاندان ہے نہ دنیاوی مال ومتاع اور نہ مادی وجاہت۔ اسلام میں فضیلت کا معیار صرف ایک ہے اور وہ ہے خوف خدا اور اطاعت رسول اور بس، یہ تھے وہ تاریخی الفاظ جو حضرت مغیرہ ؓ نے اسلام کے تعارف اور تعلیمات کے حوالہ سے رستم کے دربار میں کہے تھے ۔ جنگ قادسیہ کے آغاز سے پہلے ایرانیوں کے سپہ سالار نے خواہش ظاہرکی کہ مسلمانوں کا کوئی نمائندہ آکر ہم سے گفتگو کرے ممکن ہے وہ گفتگو نتیجہ خیز ثابت ہو اور معاملات طے پاجائیں ، چونکہ اسلام اپنی نہاد اور فطرت میں امن وسلامتی کا دین ہے ، خوامخواہ کی خونریزی اور ملک گیری اس کا مقصود نہیں اس لئے مسلمانوں نے فوری طورپر رستم کی اس خواہش کا خیرمقدم کیا ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ بن کر تشریف لائے ۔ رستم کو جب معلوم ہوا کہ آج مسلمانوں کا سفیر آرہا ہے تو اس نے اپنے دربارکو خصوصی طورپر سجایا ، تمام بڑے بڑے سردار لباس پہن کر دربار میں آئے تھے ، ہرسردار اور اسکے حواری مسلح تھے ، ان کا خیال تھا کہ دربار کی شان وشوکت اور درباریوں کے اسلحے کو دیکھ کر مسلمان سفیر مرعوب ہوجائے گا اور اس طرح اسلامی لشکر واپس چلاجائے گا ۔ لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ جو قوم ایک مرتبہ خدائے ذوالجلال والاکرام کے حضور سجدہ ریز ہوکر اس کی بندگی و غلامی کا کڑا اپنی گردن میں ڈال لیتی ہے اس کی نگاہ میں کائنات کی ہرقوت واقتدار ہیچ ہوجاتا ہے ، نہ جلال بادشاہی اسے مرعوب کرسکتا ہے اور نہ سونے وچاندی کی چمک ودمک۔ چنانچہ حضرت مغیرہ ؓ انتہائی بے نیازی سے رستم کے دربار میں تشریف لائے اور آتے ہی رستم کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھ گئے ، مغیرہ کا یہ طرزعمل دربار کے چوبداروں کو سخت ناگوار گذرا اور انہوں نے جناب مغیرہ ؓ کو تخت سے اتار دیا ۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے پاس تو یہ خبریں پہنچتی رہی ہیں کہ تم ایرانی لوگ بڑے عقل مند اور دانا ہو مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ تم نرے احمق ہو ، میں یہاں خود تو نہیں آیا تم نے مجھے بلایا ہے کیا گھربلائے مہمان کے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہئے مہمان خواہ کوئی بھی ہو اس کا احترام ہماری شریعت میں واجب ہے اگر تمہیں یہی سلوک کرنا تھا تو مجھے پہلے بتلادیتے کہ تم میں بعض خدا ہیں اور باقی اسکے بندے ہیں ، تم انسانوں کے سامنے مغلوب ہوکر سر جھکاتے ہو ، آج مجھے اس بات کا یقین ہوچلا ہے کہ تم یقینا مغلوب ہوگے ، کوئی بھی حکومت اس طرح کے بودے اصولوں کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتی۔ جب حضرت مغیرہ ؓ یہ جملے بیان فرما رہے تھے تو بعض ستم زدہ ایرانی بلا اختیار پکار اٹھے یہ عربی جو کچھ کہہ رہا ہے بجا اور درست فرما رہا ہے ۔ بعدازاں تاریخ نے دیکھا انہی حریت پسندوں کے ہاتھوں رستم کے تاج وتخت کے پرخچے اڑ گئے ، گذشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسی ہی سوچ پروان چڑھ چکی ہے ، ایک طبقہ اپنے آپ کو حاکم ، غالب، سیاہ وسفید کا مالک سمجھتا ہے ، اور دوسرے طبقات اس کے نزدیک مقہور ومجبور اور انکے غلام ہیں ، وہ جو چاہیں کریں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ، پولیس انکے گھرکی باندی، وکیل ان کے اپنے ترجمان اور عدالتیں انکی پسند کی بات سنتی ہیں ، قبضہ مافیا، قرضے معاف کروانا، تبادلے کروانا، منی لانڈرنگ، دھونس ان کا شعار ہے جبکہ دوسری طرف عوام کا وہ طبقہ ہے جو انہی لوگوں کو اپنی تقدیر کا مالک سمجھ بیٹھا ہے ، مجبوری ، مقہوری اور مغلوبیت کا شکار ہوکر انکی سوچ فکر مردہ ہوچکی ہے ، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے سمجھتے ہیں کہ یہی ہمارے پیشوا ہیں ، سیاسی ومذہبی رہنماؤں کے علاوہ اب ایک اور طبقہ دانشور ی کے نام سے بھی پھوٹ چکا ہے یہ ملک کے خلاف لکھیں ، یہ سوشل میڈیا پر ملک، اسلام ، مذہب، آسمانی کتب کا مذاق اڑائیں انہیں بھی کوئی پوچھ نہیں سکتا کیونکہ آزادی صحافت کا تقاضا ہے کہ میڈیا آزاد ہو، ہر اچھی اور مثبت بات ہو یا ایسا طرزعمل جس سے لوگوں کی دل آزاری ہو انہیں مذہبی ، اخلاقی تکلیف پہنچے یہ آزادی کی آڑ میں اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور جب انکوائری ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سپانسر کوئی نہ کوئی سفارتخانہ ہے تو پھر سارے سلسلہ کار پر مٹی ڈال دی جاتی ہے ، خدارا … اب اٹھئے۔پاکستان ہمارا ملک ہے ، یہ محب وطن لوگوں کا مسکن ہے ، مٹھی بھر سیاسی اور مذہبی بھیڑئیے اسکو نوچ رہے ہیں ، اسلام امن وسلامتی کا پیغام ہے ، آزادی فکر کی پکار کا نام ہے ، خاندانی نظام کی مضبوطی اور حیا وپاکیزگی کے پھولوں سے معطر لڑی کا نام ہے ، ہماری سیاست، ہمارے دانشور، ہمارے رہنما کہیں روٹی ، کپڑا کے نام پر ، کوئی موٹر وے کے نام پر ، کوئی مذہب کے نام معصومیت سے ترقی کا خواب دکھا کر مہذب طریقے سے لوٹ رہا ہے ایسی گلی میں دھکیلا جارہا ہے جس کا ہر راستہ بند ہے ، تعلیم وصحت ہر قوم کا بنیادی مسئلہ ہوتا ہے آج سب سے زیادہ دھوکہ اسی کے ساتھ ہورہا ہے ، آئندہ چند سالوں کے بعد ایسی قوم سامنے آئے گی۔ جوجسمانی بیماری کے ساتھ ساتھ تعلیمی طور پر پستی کا شکار ہوچکی ہے ، اب بھی وقت ہے ہر فرد اپنے مقام، اپنی حیثیت کو سمجھے ، خدائے عزوجل نے اہل پاکستان کو رحمتوں کے حصول کیلئے راستہ بتلا دیا ہے ہم اس کو تلاش اور اس پر چلنے کی بجائے سیاست کے فرعونوں کے ہاتھ میں اپنی تقدیر دے بیٹھے ہیں ، اب بھی وقت ہے ورنہ زمانہ کی دوڑ بہت تیز ہے اور یہ مغلوب لوگوں کو اور کچل کر آگے نکل جاتا ہے ۔



.
تازہ ترین