کراچی(ٹی وی رپورٹ)پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آرٹیکل 248میں وزیراعظم کا استثنیٰ محدود ہے،مخدوم علی خان نے اپنے دلائل سے اپنا مقدمہ کمزور کیا ہے،نواز شریف نے پارلیمنٹ سے غلط بیانی کر کے ارکان پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح کیا ہے،پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ق آئندہ سیشن میں وزیراعظم کے خلاف قرارداد لارہی ہیں،اپوزیشن نے فوجی عدالتوں کے معاملے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ ان کیمرہ اجلاس بلانے کی تجویز دی ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں معاون خصوصی وزیراعظم برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ بھی شریک تھے۔بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم کو آئین کی دفعہ 248کے تحت استثنیٰ حاصل ہے، وزیراعظم کی اپنے وکلاء کو ہدایت ہے کہ وہ استثنیٰ کلیم نہیں کریں گے، وزیراعظم کا وکیل وزیراعظم کے نہیں پارلیمنٹ کو حاصل استثنیٰ کی بات کررہا ہے،فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے طے کرنا چاہتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 248میں وزیراعظم کا استثنیٰ محدود ہے،وزیراعظم کے وکیل کے دلائل ان کے کان پکڑوادیں گے، مخدوم علی خان نے اپنے دلائل سے اپنا مقدمہ کمزور کیا ہے، وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر اور قطری شہزادے کے خط سے تضاد کھل کر سامنے آگیا ہے، نواز شریف نے پارلیمنٹ سے غلط بیانی کر کے ارکان پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح کیا ہے، ارکان پار لیمنٹ کا استحقاق مجروح کرنے پر پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق اگلے سیشن میں وزیراعظم کے خلاق قرارداد لارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے قوم کے سامنے تین وعدے کیے تھے کہ وہ احتساب کیلئے خود کو پیش کریں گے، ان کے پاس سارے دستاو یز ی ثبوت موجود ہیں اور وہ کسی استحقاق کی بات نہیں کریں گے، آج وزیراعظم اپنے تینوں وعدوں سے بھاگتے دکھائی دے رہے ہیں،کرپشن سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں کرسکتا ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے کیس کو بگڑتے دیکھ کر تین ٹکڑے کردیئے ہیں، مخدوم علی خان وزیراعظم کو کیس سے علیحدہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں خود کو اور اپنی فیملی کو احتساب کیلئے پیش کیا لیکن وزیراعظم کے وکیل کہہ رہے ہیں فیملی سے نوازشریف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن نے فوجی عدا لتو ں کے معاملہ پر پارلیمنٹ کا مشترکہ ان کیمرہ اجلا س بلانے کی تجویز دی ہے ،وزیراعظم فوجی عدالتوں کے معاملہ پر واقعی اتفاق رائے چاہتے ہیں تو اپنی سربراہی میں اجلاس بلائیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم کو آئین کی دفعہ 248کے تحت استثنیٰ حاصل ہے، آصف زرداری نے بھی سوئس کیسوں میں یہ استثنیٰ کلیم کیا تھا، وزیراعظم کی اپنے وکلاء کو ہدایت ہے کہ وہ استثنیٰ کلیم نہیں کریں گے، استثنیٰ اور استحقاق مختلف چیزیں ہیں،ترجمہ غلط ہورہا ہے، بعض لوگوں کو بعض معاملات میں استحقاق حاصل ہوتا ہے، رکن پارلیما ن اسلام،فوج اور عدلیہ کے خلاف بات نہیں کرسکتا، اس کے علاوہ انہیں استحقاق حاصل ہے۔بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ وزیراعظم کا وکیل یہ نہیں کہہ رہا کہ استحقاق وزیر اعظم کو حاصل ہے، یہاں پارلیمان کو حاصل استثنیٰ کی بات ہورہی ہے، وکیل صرف طے شدہ قانون کی بات کررہا ہے،اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کررہا ہے،ن لیگ نے الیکشن کمیشن میں استثنیٰ کلیم نہیں کیا،ہم سمجھتے ہیں وزیراعظم کی اسمبلی میں تقریر اورعدا لت میں جمع کرائے گئے جواب میں تضاد نہیں ہے،پاناما کیس میں پی ٹی آئی کا ایک ثبوت بھی قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج وزیراعظم کے وکیل نے سیتا وائٹ کیس کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا،اس کیس میں عمران خان کا موقف تھا کہ مجھ پر لاس اینجلس کورٹ والے الزامات میرے الیکشن سے پہلے موجود تھے چونکہ اس وقت کسی نے نہیں اٹھائے اس لئے اب انہیں نہیں اٹھایا جاسکتا ہے،جج نے ان کا موقف قبول کر کے ان کے حق میں فیصلہ دیا، اسحاق ڈار کے معاملے پر تین عدالتوں کے فیصلے ان کے حق میں آچکے ہیں۔بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے طے کرنا چاہتے ہیں۔