2015ءکا سال بدامنی، عدم تحفظ، خدشات،خوف ،مہنگائی، بے روزگاری میں گزرا، سال کے اختتام پر ایک جائزہ لیا جاتا ہے کہ ہم نے سال گزشتہ کیا کھویا اور کیا پایا۔ ساتھ ہی سال کے آخری دنوں میں روشنی کی کچھ کرنیں افق پر نمودار ہو تی ہیں جن سے توقع کی جاتی ہے کہ 2016میں وہ تابناک شعاعوں میں تبدیل ہوکر ملک کا ڈھانچہ تبدیل کرنے میں ممد معاون ہو نگی۔
اس بنیادی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک اور معاشرے کی ترقی کے لئے تعلیم پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہونا ضروری ہے۔ آئیے ایک اجمالی نظر ڈالیں کہ اس سلسلے میں ہماری پوزیشن کیا ہے۔ اس کے لئے ہمیں بین الاقوامی معیار اختیار کرنا ہوگا۔ بین الاقوامی ہیومن ڈیویلپمنٹ کے مطابق 194ملکوں میں ہمارا نمبر 147واں ہے اور فی کس آمدنی کے لحاظ سے 133واں۔ یہ معیار تعلیم، صحت اور آمدنی کے مساوی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس مساوات میں اولیت تعلیم کو دی جاتی ہے۔تعلیم کی صحیح صورت حال تو مردم شماری کے ذریعے معلوم ہوتی ہے مگر 2012-13میں ایک سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ ملک میں بالغ آبادی کی شرح خواندگی 57فیصد ہے مگر یہ نہ تو صوبوں اور شہروں میں یکساں ہے اور نہ معیاری ۔ پنجاب کا اوسط 62اور بلوچستان کا 48فی صد۔ اسلام آباد کا 84، کراچی کا 81اور نو شہرہ کا صرف 8فیصد،اس تناظر میں پنجاب کے ضلع راجن پور کے ایکقصبے رسول پور میں خواندگی کا اوسط 100فی صد ہے اور وہاں پی ایچ ڈی ڈاکٹر، وکیل، انجینئر اور دانشور موجود ہیں (جنگ 15-7-31)۔ملک میں متعدد نظام تعلیم رائج ہیں، پہلا صرف قرآن اور عام دینی تعلیم کا ہے جو عموماً مسجدوں میں رائج ہے اس کی ترقی یافتہ صورت وہ ہے جس میں دینی تعلیم کے ساتھ ریاضی، معاشیات ، اخلاقیات اور انگریزی شامل ہوتی ہیں۔ ان کو ’’دارالعلوم‘‘ کہا جاتا ہے ۔ بڑے دارالعلوم میں نہ تو فیس لی جاتی ہے بلکہ طلبا کی خوراک اور رہائش کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ سرکاری مدارس میں ٹائون کمیٹیوں، میونسپل اداروں، صوبائی اور وفاق میں چلنے والے ادارے ہیں۔ ان کی حالت بہت خستہ اور معیار ناقص ہے۔ انگلش میڈیم کے بھی دو قسم کے اسکول ہیں، ایک غیر معیاری دوسرے معیاری اور اعلی درجے کے ان کی فیس بھاری ہے جو متوسط خاندان برداشت نہیں کرسکتا۔تعلیم کی اس زبوں حالی کی بنا پر گلی گلی ٹیوشن سینٹر کھل گئے ہیں۔ جو طلبا کو نوٹس لکھوا دیتے ہیں۔ طلبا امتحانات میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر ذاتی قابلیت کا دور دور پتہ نہیں، یہ اردو یا انگریزی میں ایک معمولی خط نہیں لکھ سکتے۔ نتائج بالخصوص آخری ڈگریوں کے 35اور 40فی صد ہوتے ہیں۔ ملک اور طلبا کے خاندان اتنے کثیر ناکام طلبا کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تعلیم نے تجارتی چین سسٹم اختیار کرلیا ہے ایک انگریزی میڈیم اسکول کی کراچی میں 42، سندھ کے مختلف شہروں میں 19اور کوئٹہ میں 2شاخیں ہیں۔ ملک میں پی ایچ ڈی کی سند رکھنے والوں کی تعداد 2012ء میں 7,300تھی مگر ان کی اکثریت لسانیات، معاشیات یا دینیات میں ہے، سائنس کے پی ایچ ڈی بہت کم ہیں اور بہت سے سائنس کے شعبے ہماری یونیورسٹیوں میں موجود ہی نہیں۔جہاں تک صحت عامہ کا تعلق ہے اس کی حالت قابل رشک نہیں۔ کینسر، ہیپاٹائٹس، خسرہ، تپ دق عام ہیں اور اب نئے نئے مرض پیدا ہورہے ہیں جیسے عورتوں کی ایک بیماری، نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کا فی بلند ہے ۔ ناقص خوراک اور گندہ پانی ان بیماریوں کی جڑ ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ منرل واٹر کے نام سے صاف پانی نہیں ملتا۔ مردہ مرغیوں، بکریوں اور گدھے کےگوشت کی فروخت فروغ پر ہے۔ہماری اکثریت کو سائنس سے چڑ ہے ۔ حکومت کی جانب سے 4سال تک بچوں کو پولیو کے قطرے مفت پلائے جاتے ہیں مگر بعض افراد اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلواتے، بلکہ دوچار قطرے پلانے والے کو مار کردیا گیا۔ یہ جہالت اور سائنس کی ایجادات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ مجھے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سائنسی مضامین میں قیدیوں نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
وہ چند تجاویز جن سے عوام کو فائدہ پہنچے گا حسب ذیل ہیں۔
1۔ حکومت نے طے کیا ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس مختلف پولیس تھانوں سے ملا کرے گا۔ تھانوں میں لائنیں لگ گئیں، پتہ چلا کہ کراچی میں ہزاروں افراد بلا لائسنس گاڑیاں چلاتے ہیں۔2۔ قومی صحت کا پروگرام جس سے 325لاکھ خاندان مستفید ہونگے ہر وہ شخص جس کی آمدنی 200روپے یومیہ یا اس سے کم ہو اس خاندان کو 3لاکھ روپے سالانہ کی رعایت حاصل ہوگی اگر بیماری نے طول کھینچا تو مزید 3لاکھ بیت المال سے لئے جاسکیں گے فی الحال یہ پروگرام 32اضلاع میں شروع کیا جارہا ہے۔ دراصل ہر شہری کو بنیادی صحت کی خدمات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔3۔ عوام کو پاسپورٹ ان کے گھروں پر فراہم کیا جائے گا۔ اس سہولت سے کثیر رشوت سے نجات مل جائے گی۔4۔ رضا کارانہ ٹیکس اسکیم کا اجرا جس کو فیڈریشن آف پاکستان کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نو منتخب صدر نے سراہا ہے۔5۔ ووہولڈنگ ٹیکس کا معاملہ ابھی اٹکا ہوا ہے،31جنوری اس کی آخری تاریخ ہے۔6۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے بعض سیکٹروں پر کام شروع ہوگیا ہے۔7۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں کی جمی برف پگھلنے کے آثار نظر آتے ہیں ۔امید ہے پٹھان کوٹ کے واقعہ سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔8۔ ایمنسٹی اسکیم کا اعلان جس کے تحت ایک معمولی سی رقم دے کر کالے دھن کو سفید کرلیا جائے گا سیاست داں اور ٹیکس دہندگان کا ایک طبقہ اس کے خلاف ہے دیکھنا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔9۔پہلی ششماہی کا 7.5ارب روپے ریونیو ٹیکس کا ہدف حاصل کرلیا گیا ۔ یہ اچھا شگون ہے ٹیکس کے معاملات کاروباری اور تاجران سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر طے ہوسکتے ہیں۔