• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کی زندگی اب بمشکل شروع ہی ہوئی تھی۔ نہ وہ کسی سیاسی تنظیم کا کارکن تھا نہ ہی کسی 'با اثرخاندان کا فرد وہ ایک محنت کش ماں باپ کی اولاد تھا۔ ایک گمنام گھر کا چشم و چراغ۔ جنہوں نے اسے بڑی محنتوں آس اور امیدوں کے ساتھ یونیورسٹی سطح تک پڑھایا تھا۔ لیکن اسکا مطالعہ بھی آگے سطح کا تھا۔ اب بھی اسکی میز پر افغان نژاد لکھاری کا ناول کھلا ہوا پڑا ہے جو کتاب اپنے آخری دنوں میں یہ نوجوان تراب حسین ہالیپوتو پڑھ رہا تھا۔ تراب حسین ہالیپوتو میرے بہت ہی پیارے دوست دانشور اور تحریک انصاف سندھ کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات ذوالفقار ہالیپوتو کا بھانجا تھا۔ اسکے والدین سے بھی میرا ایک بھائی کا رشتہ تھا۔ اگر وہ نہ ہوتا تب بھی کسی بھی ایسے نوجوان کی ان حالات میں جواں موت پر دل ایسا ہی لہوریز ہوا ہوتا۔ تراب ہالیپوتو گزشتہ جنوری کو کراچی میں کارساز کے اسٹاپ پر ایک ڈمپر ڈرائیور اور ٹریفک پولیس کی مجرمانہ غفلت کا شکار ہوا۔ میڈیا نے درست کہا کہ ٹرانسپورٹ مافیا کا نشانہ بنا۔ میں اسے پہیوں کی دہشتگردی یا ٹیررازم آن وہیلز کہوں گا جسکے نیچے آج تک نہ جانے کتنے تراب ہالیپوتے اور کتنی بشریٰ زیدی لاکر ماری /ہلاک کردئیے گئےہیں۔ تراب ہالیپوتو۔ سندھ کے ایک اور بیٹے کا گرم و جوان لہو کار ساز پر بہا، کراچی کی روشنیوں اور عمارتوں کی بنیادوں میں شامل کردیا گیا۔ ڈمپر ڈرائیور تراب ہالیپوتو کو سر شاہراہ کارساز کچلتا ہوا فرار ہوگیا۔ یہ کیسے بے حس بغیر دل والے انسان ہیں کہ لا انسان۔ کہ مارو اور بھاگ جائو۔ اگر حادثاتی طور بھی کوئی آپ کے ہاتھوں یا آپ کی گاڑی کا شکار ہوا ہے تو رکے اور بغیر اس متاثر شدید زخمی کیلئے طبی امداد طلب کیے جانے کے فرار ہوجائو! جانور اور پرندے بھی اپنے ہم نفس کو مرتے یا مرے ہوئے دیکھ کر اسکے گرد جمع ہوکر واویلا مچاتے ہیں۔ کونجیں ڈار کی صورت اسوقت اس مقام کا گھیرا کیے نچلی پرواز میں بین کیے ہوتی ہیں جب تک وہاں انکی ڈار سےبچھڑ کر ماری ہوئی کونج کی لاش اس جگہ پڑی ہوتی ہے۔ یہ صرف انسان میں ناشناسی ہے کہ وہ مارو اور بھاگ جائو اور باقی ہم سب تماشائی۔
اگر بغور دیکھیں تو ملک میں اتنےلوگ انتہاپسندی والی دہشت گردی سے ہلاک نہیں ہوئے جتنے کراچی سمیت سندھ اور باقی ملک میں پہیوں والی دہشت گردی کے ذریعے ہلاک ہوئے ہونگے۔ ملک میں عام طور اور کراچی سمیت سندھ میں خاص طور پر۔
کتنے اور کیسے کیسے لوگ ان حادثات کی نذر ہوئے ہیں جو کہ ذرا سی توجہ اور ایماندارانہ اقدامات و بروقت ایمرجنسی انتظامات سے بچائے جا سکتے تھے۔
سندھ کے روڈ اور شاہراہیں ایسی حالت میں کیوں ہیں اسکا موازنہ متعلقہ محکموں کے اعلیٰ اور سینئر عملے کے محل نما بنگلوں اور مینشنوں سے کریں۔
کیا آپ نے کراچی دادو بذریعہ انڈس ہائی وے جامشورو سے سیہون سفر کیا ہے جہاں آمری اور مانجھند کے قریب یہ شاہراہ ہے کہ ’’بلیک ہول‘‘؟حالانکہ یہ علاقہ سندھ کے موجودہ وزیر اعلیٰ سمیت اچھے خاصے حکومتی اور حزب مخالف سیاستدانوں کا آبائی علاقہ اور حلقہ جات ہے۔ لیکن یہ روڈ بھی نہ جانے کتنے عشروں سے مسافروں کیلئے منزل موت بنا ہوا ہے۔ اب تو کراچی حیدرآباد سپر ہائی وے بھی مانجھند سیہون شاہراہ بنا ہوا ہے۔
لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ یہاں کے قرب و جوار سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن جن کا تعلق ایک قوم پرست سیاسی پارٹی سے ہے وہ یہاں ہونیوالے حادثوں کے شکار مسافروں کی فوری طبی امداد کیلئے اپنی مدد آپ کی طرح خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ مجھے کینیڈا سے انکا ساتھ دینے والی میری دوست ارمغان بروہی بتا رہی تھیں کہ وہ لوگ ایک پرائیویٹ ایمبولینس کی کوشش کر رہے ہیں جس کیلئے انکو اٹھارہ لاکھ روپوں کی فوری ضرورت ہے۔ سندھ کی حکومت کو جو کام کرنا چاہئے تھا یہ لوگ کر رہے ہیں۔ حالانکہ اٹھارہ لاکھ روپوں سے زیادہ تو زرداروں کے پروٹوکول پر چند گھنٹوں میں خرچ کیے جاتے ہیں۔ مخیر حضرات و خواتین کو ضرور آگے آنا چاہئے۔ مستحسن بات ہے ایمبولینسوں کو زندگياں بچانے کیلئے استعمال کیا جائے۔ وگرنہ ماضی بعید میں کچھ افراد ایمبولینسوں کو کن مقاصد کیلئے استعمال کرتے رہے تھے یہ ایک اور دل ہلادینے والی کہانی ہے پھر کبھی سہی۔
کتنے اور کیسے نہ لوگ اور جوان اس پہیوں والی دہشتگردی نے ہم سے چھینے ہیں
موت کے منہ میں بیٹھ کر راکٹ چلانے والو!
ہزاروں گمنام اور نامور عورتوں، مردوں، اور انکے بچوں کے علاوہ جو مجھے کچھ نام یاد آتے ہیں وہ یا تو پہیوں کی دہشت گردی یا ان روڈ حادثوں کا شکار ہوئے ان میں پروین شاکر ( اب بھی پتہ نہیں وہ فیصل مسجد اسلام آباد والی ٹریفک لائٹ بنی کہ نہیں)، پیپلزپارٹی کے رہنما ڈاکٹر اسماعیل اڈھیجو، جگدیش ملانی، سندھ کے دبنگ صحافی فقیر محمد لاشاری گوجر خان کے پاس، میرے دوست اور صحافی مسعود عالم، سندھ میں میرے محبوب دوست اور شاعر حسن درس جسے دو گھنٹے بغیر کسی طبی امداد زخمی حالت میں چھوڑ دیا گیا کہ پولیس آئی اور حد اختیار کا عذر کرتی چلتی بنی ایسی مجرمانہ غفلت کہ کبھی سارے سندھ کے محبوب کا عکس کہنے والے اس شاعر کو اسطرح مرنے دینے پر کسی کو کوئی غیرت نہیں آئی، شاعر الطاف عباسی، جنٹل مین افسر عاشق میمن اور انکے بھائی، بیگم نصرت بھٹو کے سیکرٹری اور میرے دوست اشرف میمن، نوجوان صحافی عزیز جان بلوچ، ترقی پسند نوجوان اور ذہن قاضی سلیم اکبر جو کہ سندھ میں ترقی پسند صحافت کے بانی تھے سپرہائی وے پر انیس سو چہتر میں حادثے کا شکار ہوئے، اور اب تراب ہالیپوتو جس کے والدین نے اسے بڑی جفاکشیوں سے انجینئربنایا تھا اور ابھی روزگار سے لگا ہی تھا کہ کارساز پر ڈمپر والے کے مارو اور بھاگو کا نشانہ بنا۔ اور ڈرائیور کھڑا رکا بھی نہیں اور نہ ہی ڈمپر کے مالک نے اسے پولیس کے حوالے کیا۔
اگر ان سب کے پیارے اور متمول لوگ روڈ حادثوں یا پہیوں والی دہشتگردی کے خلاف ڈٹ جائیں اور حادثات کے امکانات کم کرنے کےضمن میں کوشش کریں سی پی ایل اسی کی طرز پر کوئی سرگرم تنظیم ہو۔ پنجاب کی طرح کی موٹر وے پولیس ہو۔ تو سندھ کو اسطرح بھی بچایا جا سکتا ہے۔ ملک کو بچایا جا سکتا ہے۔
گمشدہ لوگ گمشدہ لوگ ہیں (قلم تازہ)
حال ہی میں شاعر اور پروفیسر سلمان حیدر اور دیگر اصحاب قرطاس و قلم کی گمشدگیاں انتہائی قابل تشویش ہیں۔ یہ جو ہر طرف سیکولر، لبرل، ترقی پسندوں کو اٹھائے جانے پر احتجاج جاری ہے اور جاری رہنا بھی چاہئےاور انہیں با سلامت اور صحیح اپنے گھروں کو واپس ہونا بھی چاہئے لیکن تم کو بتاتا چلوں کہ اس ملک میں یہ سر نہ اٹھاکر چلنے دینے کی رسم کوئی تازہ نہیں ہے بلکہ لبرل، اور سیکولر اور ترقی پسند لوگوں کے اٹھائے جانے سے ہی شروع ہوئی تھی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ جو حالیہ برسوں میں بلوچ اور سندھی قوم پرست کارکن، دانشور اور نہتے لوگ غائب ہیں/ تھے ان میں بھی اکثر لوگ سیکولر، لبرل اور ترقی پسند ہی تھے اور ہیں۔ نیز یہ کہ گمشدہ لوگ بس گمشدہ لوگ ہوتے ہیں دائیں بائیں، سول اور نان سول بھی نہیں ہوتے۔
قلم تازہ یہ ہے کہ ابھی اٹھائیس دسمبر کو آپ نے کئی اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ اس رسم کے تحت پاکستان فضائیہ کے ریٹا ئرڈ ائیر کموڈر غلام قادر لودھی کو بھی اسلام آباد میں ایسے ہی اٹھایا گیا ہے جیسے کسی کو ڈاکو اغوا کرتے ہیں۔ تاحال کموڈر لودھی کا کوئی اتا پتا نہیں۔ آٹھ اگست دو ہزار سولہ کو جئے سندھ قومی محاذ کے کارکن راجہ بھٹی اور حال ہی میں خیرپور میرس سے ایک وکیل فیاض کو۔ گزشتہ دو ماہ سے ستر سال کی عمر کے لگ بھگ قوم پرست سیاسی کارکن محمد راہموغائب ہیں۔قوم پرست محمد راہمو تا حال غائب ہے۔ اور یہ بھی متھ ٹوٹ گئی کہ پنجاب سے لوگ غائب نہیں کیے جاسکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ غائب کرنیوالوں نے پورے ملک میں ایک غائبانہ مارشل لا لگایا ہوا ہے۔

.
تازہ ترین