• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل مشرف کی کسی ڈانس پارٹی کی ایک تازہ ویڈیو آج کل سوشل میڈیا میں خوب شیئر کی جا رہی ہے۔ جناب جلتی بجھتی ڈسکو لائٹس میں دوسروں کے ساتھ ڈانس کر تے دکھائی دیئے۔ اُن کو دیکھ کر محسوس ایسا ہوا جیسے وہ ہماری ریاست کے پورے نظام کو چڑا رہے ہوں ۔ مشرف صاحب کا یہ ڈسکو ڈانس پاکستان کی عدلیہ کے ایک فرداور حکومت کو اُن کی بے بسی یاد دلا رہا ہے کہ دیکھو میں کس طرح ملک سے باہر عیاشی کی زندگی گزار رہا ہوں اور کسی میں کوئی جرأت نہیں کہ میرے واپسی کی بات کرے۔ مشرف کے اس ڈسکو ڈانس کو دیکھ کر مجھےراحیل شریف کی حالت پر بھی افسوس ہوا کہ کس شخص کے لیے ان قومی اداروں نے اپنی ساکھ کو بار بار متاثر کیا۔ مشرف کے ڈسکو ڈانس نےاسپتال کے اعلیٰ ترین ڈاکٹروں کے علاوہ کراچی کے اُن بڑے بڑے سول اسپیشلسٹ معالجوں کا بھی پول کھول دیا جن کے مطابق مشرف کو نہ صرف دل بلکہ ریڑھ کی ہڈی کاشدید عارضہ لاحق ہے اور اُن کو سرجری کی ضرورت ہے جو پاکستان میں ممکن نہیں۔ عدالت اعظمیٰ اور حکومت پاکستان کو انہی ڈاکٹرز حضرات کی طرف سے بتایا گیا کہ مشرف کو مکمل آرام اور فوری بیرون ملک علاج کی ضرورت ہے۔نہ مشرف کا بائی پاس ہوا، نہ ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ملک سے باہر جاتے ہی مشرف چاک و چوبند ہو گئے۔ سیاسی ملاقاتیں شروع کر دیں، اپنی سیاسی جماعت کو ایکٹو کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں، ٹی وی انٹرویوز دیئے جانے لگے۔ کبھی دبئی، کبھی برطانیہ اور کبھی کہاں۔ چند ماہ قبل مشرف صاحب کی کسی ایک نجی شادی کی محفل میں لڈی ڈالتے ہوئے وڈیو سامنے آئی لیکن جو ڈسکو ڈانس اب وہ کرتے دکھائی دیئے اُس نے بہت سوں کو یہ بھی سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیسے کیسے لوگ اس ملک کے حکمران رہے اور کیسے کیسے لوگوں کے لیے ہم نے سب کو تماشا بنا دیا۔ کس شخص کے لیے بڑے بڑے ڈاکٹروں نے اپنے پیشہ کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا، کس کو ملک سے باہر بھیجنے کے لیے اُس وقت کے آرمی چیف نے اپنا اثر رسوخ استعمال کیا۔ جنرل مشرف دراصل اُس طاقتور اشرافیہ کی ایک بہترین مثال ہیں جن کے لیے آئین، قانون، قواعد کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ویسے تو اس ملک کا نظام جمہوریت کے نام پر حکمرانی کرنے والوں کا بھی احتساب کرنے میں ناکام رہا اور اسی سیاسی اشرافیہ کو کلین چٹ دینے کے لیے نیب، ایف بی آر، ایف آئی اے سمیت دوسرے ادارے وہی کرتے ہیں جو بڑے بڑے ڈاکٹروں نے مشرف کے لیے کیالیکن مشرف کی مثال اُس لاڈلے کی ہے جس کے بال کوئی بھیگا نہیں کر سکتا۔بلا شبہ نیب نے آصف علی زرداری ،میاں نواز شریف اور کئی دوسروں کے خلاف کرپشن کیسوں کو عدالتوں کے ذریعے یا اپنے لیول پر ختم کروانے میں اہم کردار ادا کیا، کوئی شک نہیں کہ ٹھوس ثبوتوں کے ہوتے ہوئے زرداری صاحب سمیت دوسرے این آر او کیسوں کو ایک ایک کر کے فرینڈلی استغاثہ کے ذریعے قومی احتساب بیورو نے عدالتوں سے کلیئر کروایا، سب دنیا جانتی ہے کہ پاناما پیپرز میں وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کے نام آنے پر نیب، ایف آئی اے اور دوسرے قومی اداروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہولیکن اس سب کے باوجود ان سیاستدانوں کو ہتھکڑیاں بھی لگیں، جیلیں بھی کاٹنی پڑیں اور ملک بدری کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ نظام اگرچہ جمہوری اور سیاسی رہنمائوں کا حقیقی احتساب کرنے میں بھی ناکام رہا لیکن مشرف کے سامنے اس نظام کی جوبے بسی دنیا نے دیکھی اُس کا کسی دوسرے کیس سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ قانون کی حکمرانی کی باتیں تو یہاں بہت ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ کہ اس کا جتنا مذاق ہمارے ملک میں اڑایا جاتا ہے اُس کی شاید ہی کوئی اور مثال ہو۔ ویسے یہ بات یاد رہے کہ جنرل مشرف کے مبینہ جرائم کی طویل لسٹ کا کسی سیاسی رہنما پر لگائے الزامات سے کوئی تقابل نہیں ہو سکتا۔ ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ مشرف کو انٹر پول کے ذریعے پاکستان واپس بلایا جائے اور اُن کے خلاف غداری سمیت دوسرے تمام کیسوں کے متعلق عدالتی کارروائی مکمل کی جائے، سپریم کورٹ کو چاہیے کہ زرداری سمیت این آر او کے تمام کیسوں کو دوبارہ کھولا جائے اور اُن کا ازسرنو ٹرائل کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ پاناما پیپرز اور شریف خاندان کے خلاف دوسرے کیسوں کی تحقیقات کے لیے نیب ، ایف آئی اے اور ایف بی آر کے افسران کی ایک ٹیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے تحت ان معاملات کی مکمل تحقیقات کرائی جائیں۔ یہ سب خواہشوں کی باتیں ہیں، اس کو آپ آئیڈیل ازم سے بھی تشبیح دے سکتے ہیں۔ ورنہ یہاں ہونا وونا کچھ نہیں۔ ہم آج بھی جاہلیت کے اُس دور میں رہتے ہیں جہاں کمزور کو تو چوری پر سزا ملتی تھی لیکن اگر کوئی امیر اور طاقت ور کسی جرم کا ارتکاب کرلے تو پورانظام ہی اُس کے سامنے جھک جاتا تھا۔

.
تازہ ترین