• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین کے صدر شی چن پنگ نے ڈیووس کے اکنامک فورم میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ تجارت پر پابندیاں لگانے سے ساری دنیا کو نقصان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی جنگ سے کسی ملک کو بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسری طرف امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی صنعت کو تحفظ دینے کے لئے چین یا میکسیکو سے درآمد کی جانے والی درآمدات پر نئی ڈیوٹی اور ٹیکس لگائیں گے۔ اگر چین، میکسیکو اور دوسرے ممالک نے بھی اپنی اپنی صنعتوں کا تحفظ کرنے کے لئے اس نوع کی پابندیاں عائد کرنا شروع کردیں تو دنیا میں تجارتی جنگ شروع ہو جائے گی۔ امریکہ اور چین کے اس ٹکراؤ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دونوں ممالک وہ کر رہے ہیں جو ان کی ریاستوں کے نظریے کے منافی ہے۔
امریکہ سرمایہ داری کے نظریے کا پجاری ہے اور اس کی نظریاتی اساس کے مطابق ہر معاشی فیصلہ آزاد منڈیوں کے ذریعے ہونا چاہئے۔ ریپبلکن پارٹی کا تو فلسفہ ہی یہ ہے کہ حکومت کو مختصر ہونا چاہئے اور ہر کام منڈی کے حوالے کردینا چاہئے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ بین الاقوامی تجارت پر بھی کسی طرح کی روک ٹوک نہیں ہونا چاہئے۔ اسی منڈی کے اصول کے مطابق پچھلی دو دہائیوں میں امریکی سرمائےکا بہاؤ ان ملکوں کی طرف ہو گیا جہاں پیداواری لاگت کم تھی اور منافع کی شرح زیادہ تھی۔ چنانچہ امریکی کارپوریشنوں نے پیداوار چین، میکسیکو، کینیڈا اور دوسرے ایسے ملکوں میں منتقل کردی جہاں اجرتوں کی سطح کمتر تھی۔ امریکی سرمایہ داروں نے دوسرے ملکوں میں پیداوار منتقل کرکے جی بھر کر منافع کمایا ہے۔ لیکن اس عمل میں جب امریکی صنعتیں ملک سے باہر منتقل ہونے لگیں تو امریکی مزدور بیروزگار ہونے لگے۔ بہت سی ریاستوں میں صنعتوں کے خاتمے کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان ریاستوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دے کر جتوایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار وعدہ کیا تھا کہ وہ صنعتیں ملک سے باہر لے جانے والوں کو آڑے ہاتھوں لیں گے اور اگر صنعتیں باہر لے جانے والے سرمایہ داروں نے اپنی مصنوعات امریکہ میں بیچنے کی کوشش کی تو وہ اس پر بھاری بھر کم ٹیکس نافذ کردیںگے۔
دوسری طرف چین ہے جہاں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ نظری اعتبار سے چین میں آزاد منڈی کا کوئی تصور نہیں ہے:ہر معاشی فیصلہ کمیونسٹ پارٹی کی تنظیم کا مرہون منت ہونا چاہئے۔ اس نظریاتی پس منظر میں آزاد تجارت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن چین نے معاشی اصلاحات کے ذریعے بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری کے دروازے کھول دئیے۔ چنانچہ ایک مخصوص طرز کی سرمایہ داری کو فروغ ملا۔ چین نے سیاسی سطح پر کمیونسٹ پارٹی کا کنٹرول قائم رکھا جو کہ سرمایہ داری نظام کی نفی ہے۔ اسی طرح ہندوستان، میکسیکو اور بہت سے دیگر ممالک نے ایسی معاشی اصلاحات کیں کہ گلوبل سرمائےکی نقل و حمل آزاد ہو گئی۔ اس گلوبلائزیشن کے ماحول میں چین، ہندوستان اور دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں صنعتی انقلاب آنا شروع ہو گئے۔ گلوبلائزیشن کی اسی دوڑ میں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ اس کی پیداواری طاقت میں اتنا اضافہ ہوا کہ وہ ایک بڑی معاشی طاقت بن گیا۔ وافر پیداوار اور بچتوں کی سطح اتنی بلند ہوئی کہ اب امریکہ کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ کئی سو بلین ڈالر ہے۔ امریکہ چین کا ایک کھرب سے زیادہ کا مقروض ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو ڈونلڈ ٹرمپ اچھال رہے ہیں اور چینی درآمدات پر پابندیاں لگانا چاہتے ہیں۔ چین بھی رد عمل میں ایسے اقدامات اٹھا سکتا ہے جس سے امریکہ کو کافی نقصان ہو سکتا ہے۔
اس ساری کہانی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چین وہ کہہ رہا ہے جو امریکہ کے سرمایہ داری نظام کو کہنا چاہئے اور امریکہ وہ کرنا چاہتا ہے جو غیر آزاد کمیونسٹ معاشروں کا نظریہ ہے۔ اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ نظریہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے اورترجیح معاشی مفادات کو حاصل ہے۔ صدر شی چن پنگ گلوبلائزیشن کے اس لئے گن گا رہے ہیں کہ اس سے چین کو فائدہ ہوا ہے۔
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ گلوبلائزیشن کی اس لئے مخالفت کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں امریکی معاشی مفادات کو نقصان ہو رہا ہے۔ چنانچہ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اصل حقیقت معاشی مفاد ہے۔ اگر ایسا ہے تو پوری دنیا کی تاریخ کے مدوجذر کے پس منظر میں معاشی مفادات کا تجزیہ کیا جانا چاہئے۔ دنیا کی دو بڑی جنگیں تیسری دنیا کی منڈیوں پر قبضے کی جدوجہد تھی۔ ان دوبڑی جنگوں میں بظاہر یورپ قوم پرستی کے جنون میں مبتلا نظر آتا ہے لیکن تھوڑا غور کریں تو مسئلہ منڈیوں پر قبضے کا تھا، یعنی دکھائی کچھ دیتا ہے اور حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔
بلھے شاہ کا مشہور شعر ہے:
کتے رام داس کتے فتح محمد، ایہو قدیمی شور
نپٹ گیا دوہاں دا جھگڑا، نکل پیا کوئی ہور
(زمانہ قدیم سے جھگڑا بظاہر رام داس اور فتح محمد کے درمیان ہے۔ لیکن اگر دونوں کے جھگڑے کو نپٹا دیا جائے تو کوئی اور ’تضاد‘ سامنے آجاتا ہے)
یعنی نظریات اور مذہبی تضادات بظاہر کچھ نظر آتے ہیں لیکن اگر ہم تضاد کی اصل بنیاد کو دیکھیں تو وہ معاشی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ رام داس اور فتح محمد میں بظاہر مذہبی تضاد ہے لیکن اگر ہم اسے دور کردیں تو اصلیت سامنے آتی ہے۔ اور اصلیت معاشی مفادات سے تعبیر ہوتی ہے۔ یہی معاشی مفاد صدر شی چن پنگ سے گلوبلائزیشن کی تعریفیں کروا رہا ہے اور صدر ٹرمپ سے تنقید!



.
تازہ ترین