سردی تو گرمی کھا گئی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ دو چار بے ضرر سے جملوں پر مشتمل فرینڈلی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے نتائج اتنے گمبھیر ہوں گے۔ ایک بار لکھا کہ اس بار گرمیاں تو چلی گئیں۔ سردیاںآنے کا نام نہیں لے رہیں۔ دوسرا تبصرہ کچھ اس قسم کا تھا کہ ہماری سردیاں بھی ہماری جمہوریتوں کی طرح دو نمبر اور جعلی سی دکھائی دینے لگی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ خدا جانے سردیوں کو کون سا جملہ اس قدر ناگوار گزرا کہ اب وہ صحیح معنوں میں کڑا کے نکالنے پر تلی ہوئی ہیں۔ بارش مجھے بہت پسند ہے لیکن اتنی باریک اور لگا تار بارش کہ بیان سے باہر۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ آج کل کی یہ بارش گیلی بھی بہت ہے اور ٹھنڈی بھی بہت۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھے سردی بھی عام آدمی کی نسبت کہیں زیادہ لگتی ہے کیونکہ بچپن میں ’’خان صاحبان ‘‘ کے ساتھ خاصا وقت بتایا دوست تو میرا پیجی (نصرت فتح علی خان) تھا لیکن اس کے ارد گرد مختلف قسم کے ’’خان صاحبان‘‘ کا ہجوم رہتا کیونکہ وہ ان کا ’’ولی عہد‘‘ تھا۔ سکول کے دنوں میں ہی میں نے سردیوں کے بارے میں عجیب و غریب جملے سنے اور ان سے بہت فیسی نیٹ بھی ہوا مثلاً ریگل سنیما کے سامنے جھنگ بازار کی طرف پہلی دکان ایک فارمیسی تھی۔ جہاں حلیم رضا بیٹھتا اور ڈاکٹر حلیم رضا کہلاتا۔ بعد ازاں اسے پیپلزپارٹی کا ٹکٹ ملا تو یہ بیٹھے بٹھائے ایم پی اے بھی بن گیا۔ اس کے بارے مشہور تھا جلسہ عام میں کسی نے پوچھا ’’حلیم رضا ! تم ایم بی بی ایس کئے بغیر ڈاکٹر کیسے بن گئے ؟‘‘ حلیم رضا نے پوچھا ’’علامہ اقبال نے ایم بی بی ایس کیا تھا ؟‘‘ جواب نفی میں آیا تو سینہ پھلا کر بولا ’’علامہ میرے مرشد ہیں اور اگر وہ ایم بی بی ایس کئے بغیر ڈاکٹر بن گئے تو میں ان کے پیچھے کیوں نہ چلوں ‘‘۔ اسی حلیم رضا کی دکان سے دو تین دکانیں چھوڑ کر ’’قیوم بھیے‘‘ کی پان سگریٹ کی دکان تھی۔ ایک بار قیوم نے کسی خان صاحب کو زبردستی ’’کے ٹو‘‘ سگریٹ کی ڈبیہ دینے کی کوشش کی تو اس نے کہا ’’کے ٹو سگریٹ بہت اچھا اور کڑوا ہے لیکن اس کی ڈبیہ پر برف سے ڈھکے پہاڑ کی تصویر دیکھ کر ٹھنڈ لگنے لگتی ہے۔ بھائی اس لئے ہم لوگ تو اسے ہاتھ بھی نہیں لگاتے کہیں مذاق مذاق میں ہی نمونیہ نہ ہو جائے‘‘۔اسی طرح یاد نہیں کس نے کہا تھا لیکن جملہ تب سے اب تک بری طرح چپکا ہوا ہے اور جملہ کیا تھا ’’ہمارا تو بس نہیں چلتا ورنہ ہم سردیوں میں کوئلے گوشت کی ہنڈیا چڑھائیں۔ مختصراً یہ کہ خان صاحبان کی صحبتوں کا ہی اثر ہو گا کہ مجھے سردی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی محسوس ہوتی ہے۔ خصوصاً گزشتہ چند دنوں سے تو اخیر ہو چکی کیونکہ فلو زوروں پر ہے اور جان چھوڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ گلا جیسے چھلا ہوا ہو، چھاتی بری طرح جکڑی ہوئی، بدن ٹوٹتا ہے اور مکروہ قسم کی کھانسی کا دورہ پڑ جائے تو رکنے کا نام نہیں لیتا جس کے نتیجہ میں پسلیاں اور پیٹ کے مسل تک دکھنے لگتے ہیں۔ خود اپنی آواز اوپری اوپری سی سنائی دیتی ہے تو اس کا ایک پہلو یہ بھی کہ دماغ جکڑا جکڑا اور منہ کا ذائقہ انتہائی خراب اور خشک ساتھ گلے کی خراش تو ظاہر ہے۔ ان تمام فیکٹرز کی موجودگی میں سگریٹ نوشی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس کے نتیجہ میں نکوٹین کی کمی بھی واقع ہو جاتی ہے۔ جو مجموعی بیزاری کو خاطر خواہ ضربیں لگا دیتی ہے۔پڑھنے کی کوشش کرو تو کچھ ہی دیر میں آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے۔ گزشتہ دو دن سے ندیدوں کی طرح میاں رضا ربانی کی مختصر کہانیوں پر مشتمل کتاب "INViSiBLE PEOPLE"کو دیکھ رہا ہوں۔ میاں رضا ربانی ان لوگوں میں سے ہیں۔ جن کی وجہ سے منصب باعزت ہوتے ہیں۔ جیسے رضا ربانی کے چیئرمین سینیٹ ہونے سے اس عہدے کی توقیر کئی گنا بڑھ گئی۔ رضا ربانی قائداعظم کے پہلے ائیر اے ڈی سی انکل عطا ربانی مرحوم و مغفور کا قابل فخر فرزند ہے۔ انکل عطا ربانی اور میرے والد میاں نثار الحق بچپن کے دوست تھے اور جالندھر میں ان کے گھر بھی ساتھ ساتھ تھے۔ میرے پاس آج بھی انکل عطا ربانی کے خوبصورت خطوط اور عطا کی گئی کتابیں قیمتی سرمائے کی صورت محفوظ ہیں۔ جب کبھی لاہور تشریف لاتے میں حاضر ہو جاتا اور پھر جالندھر کے عالی محلہ ، امام ناصر کی درگاہ، اپنے اور میرے والد مرحوم کی شرارتوں کے قصے اور بابائے قوم کے ساتھ اپنی رفاقت کی یادیں اور تذکرے۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’’بوڑھ دے تھلے بوڑھ نہیں اگدا‘‘ یعنی برگد کے درخت تلے برگد نہیں اگتا لیکن شاید رضا ربانی کا کیس ذرا مختلف ہے۔طبیعت سنبھلتے ہی "INViSiBLE PEOPLE"پڑھ کر رضا ربانی کو رسید بھیجوں گا اور ساتھ ہی یہ فرمائش بھی کہ اس کے اردو ترجمہ کا اہتمام بھی کیا جائے تاکہ اردو قارئین اس سے محروم نہ رہیں۔
.