ڈونلڈ ٹرمپ کی دھواں دھار انتخابی تقاریر اور شعلہ فشاں الیکشن مہم کے بارے میں بالعموم یہ کہا جاتا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران اس طرح کا جارحانہ انداز اپنایا جاتا ہے مگر جب ٹرمپ وائٹ ہائوس پہنچ جائیں گے تو ان کالب و لہجہ اور ترجیحات بالکل بدل جائیں گی۔ غیرسنجیدگی، مدبرانہ سنجیدگی میں بدل جائے گی اور غم و غصہ، الفت و مروت میں تبدیل ہوجائے گا۔ مگر ٹرمپ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ نہ تم بدلے نہ ہم بدلے نہ دل کی آرزو بدلی۔ پیٹر و ہنر ریپبلکن پارٹی کے ایک سینئر لیڈر ہیں۔ انہوں نے علی الاعلان ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہ دیا۔ ان کی جیت کے بعد بھی وہ اپنے فیصلے پر سوفیصد مطمئن ہیں۔ ایک نہیں کئی سینئر ریپبلکن قائدین کا یہی موقف تھاکہ ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کے لئے ایک بالکل نامناسب شخصیت تھے۔ ان کے اندر تحمل اور ٹھہرائو نہیں۔ وہ ہر لرزش صبا کے کہے پر چل پڑتے ہیں اور لمحاتی بنیادوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کردیتے ہیں۔ انہیں امریکہ کی تہذیبی، ثقافتی، قانونی اور دستوری اقدار کا پاس لحاظ نہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایسا شخص اگر صدر ِ امریکہ ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کی سب سے بڑی فوج کا کمانڈر انچیف بھی ہوگا تو دنیا کے لئے کئی ناگہانی آفات کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ امریکی صدر کے حلف اٹھانے کےاگلے روز واشنگٹن میں عورتوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ احتجاج میں کم از کم پانچ لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔ امریکہ کی کئی مشہور خواتین سلیبرٹیز، چینی اور پاکستانی لیڈیز نے بھی پرجوش تقاریر کیں۔ ایک پاکستانی خاتون حنا نوید کی تقریر پر انہیں بہت داد ملی۔ ایک اندازے کےمطابق اس احتجاج میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے والوں سے تین گنا زیادہ تعداد تھی۔ یہی نہیں کہ خواتین نےصرف واشنگٹن میں احتجاج کیا امریکہ کے علاوہ بوسٹن، شکاگو، نیویارک، لاس اینجلس، رسکانسن کے علاوہ اور بڑے بڑے امریکی شہروں میں بھی احتجاج ہوا۔ ان کے علاوہ دنیا کے سات براعظموں کے 600 شہروں میں بھی ٹرمپ کی پالیسیوں اور بالخصوص خواتین کے بارے میں ان کے نظریات و خیالات کی شدید مذمت کی گئی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور ان کے انداز و خیالات کو زیربحث لانے کی بجائے اب دیکھنا ہے کہ وہ دنیا کے بارے میں کیا پالیسی رکھتے ہیں اور دنیا کے لئے ان کا کیا پیغام ہے۔ چین کے خلاف وہ اقتصادی جنگ تو شروع کرچکے ہیں مگر اب یہ کہا جارہا ہے کہ وہ پرانی امریکی پالیسی میں روس کا جو مقام تھا وہ اس کی جگہ چین کو رکھنے کاارادہ رکھتے ہیں اوراس کے خلاف سردجنگ کے ’’شعلوں‘‘ کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ چین مخالف جنگ میں ٹرمپ امریکہ کے لئے ہزیمت کا سامان ہی اکٹھا کریںگے۔ تبھی تو بین الاقوامی امور کے ایک چینی ماہر پروفیسر نے کہا ہے کہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے مگرڈونلڈ ٹرمپ ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ کی تصویر بنے دکھائی دے رہےہیں۔
ہر ملک کو اپنا مفاد اولین قرار دینے کاحق حاصل ہے۔ اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی استحقاق نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کی تقریر میں بجاطور پر زور دے کر دو بار کہا کہ امریکہ فرسٹ ، امریکہ فرسٹ، تاہم اس کاہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ گلوبل ویلیج میں سمٹتی ہوئی دنیا کو نہ صرف سرخ جھنڈی دکھائیں بلکہ ان کےخلاف معاندانہ عزائم کاا ظہار کریں۔ امریکی صدر نے اسلامی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بارے میں جس عزم کا اظہار کیااس سے دنیا کو اختلاف نہیں مگرالفاظ کے انتخاب کے بارے میں دنیا کے بہت سے تحفظات ہیں۔ کہنا یہ چاہئے تھا کہ اسلامی دنیا دہشت گردی کی جس لہر کی لپیٹ میں آئی ہوئی ہے اس سے اسے نجات دلائیں گے۔ پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہے اور امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دے چکا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض دانشور حمایتیوں کا تجزیہ تھا کہ ٹرمپ ’’مین آف ایکشن‘‘ ہے۔ اس لئے وہ دنیا کو امن کاگہوارہ بنانے کے لئے دہائیوں پرانے تنازعات حل کرنے کے لئے ایک جاندار پالیسی اختیار کرےگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف اقدام کرنے کااعلان کیا ہے مگراس نے ریاستی د ہشت گردی کا شکار ہونے والے کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں سے کوئی اظہار ِ یکجہتی نہیں کیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ٹرمپ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر حل کرنےکے لئے آگے بڑھتے مگر ابھی تک ٹرمپ کی طرف سے ایسا کوئی عندیہ سامنے نہیں آیا۔ اس کے برعکس ٹرمپ نے پچھلی امریکی حکومت کی پالیسی کے خلاف اسرائیل کی پیٹھ ٹھونکی اور امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے بیت المقدس لانے کے بارے میں مذاکرات شروع کردیئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی پالیسیوں کے تسلسل کو مدنظر رکھیں۔ صرف ایک اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے سارے عالم عرب اور تمام عالم اسلام کو ناراض کر رہے ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک تو امریکہ کے روایتی اتحادی ہیں۔
اس وقت ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ٹرمپ کے دور ِ صدارت کو پاکستان کے حق میں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کےلئے سفارتی محاذ پر کیاکیا کوششیں ہونی چاہئیں۔ حکومت نے بین الاقوامی شہرت رکھنے والی کسی اہم شخصیت کو وزارت ِ خارجہ کی ذمہ داری نہیں سونپی۔ لہٰذا اس حوالے سے کسی بھی سطح پر غور و فکر سے غالباً کام نہیں لیا جارہا۔ صدارتی حلف اٹھانے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ ہونے والی بے تکلف ذاتی انداز کی خوشگوار گفتگو کو جس انداز میں ہماری حکومت نے اچھالا اسے نہ صرف ایک سفاتی بدذوقی قرار دیا گیا بلکہ ٹرمپ اور اس کی ٹیم نے بھی اسے ناپسند کیا کیونکہ بھارت اور کئی اور حلقوں نے اس گفتگو پر ناخوشگوارردعمل کا اظہار کیا تھا۔ اب حلف کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم کو فون کیا تو اس کے بارے میں بھارتی میڈیا نے اتنا صرف بتایا کہ انہیں یہ خبر وائٹ ہائوس سے ملی اور گفتگو کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دی گئیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک پیغام میں پاکستان کے لئے بین السطور ایک خوشخبری کی جھلک نظر آتی ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’دنیا کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم بیرون ملک دشمنوں کی تلاش میں نہیں جاتے۔ ہمیں اس وقت بہت خوشی ہوتی ہے جب پرانے دشمن ہمارے دوست بن جاتے ہیں اور جب پرانے دوست ہمارے اتحادی بن جاتے ہیں‘‘ اس پیغام میں ایک واضح اشارہ تو روس کی جانب ہے کہ اگر وہ دشمن سے دوست بن جائے گا تو امریکہ کو خوشی ہوگی۔ 1970کی دہائی میں جب امریکہ نے چین کو اپنا دوست بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور ہنری کسنجر پاکستان کےراستے چین گئے تھے تو یہ امریکہ کے لئے یقیناً ایک بہت پرمسرت موقع تھا۔ ٹرمپ کے پیغام میں دوسرا اشارہ شاید پاکستان کی طرف ہے کہ پاکستان امریکہ کابہت پرانا دوست ہے جو اب اس کا اتحادی بن چکا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ ثابت کریں کہ وہ ایک مین آف ایکشن ہونے کی حیثیت سے امن پالیسی اپنائیں گے اور ساری دنیا کو امن و سلامتی کا پیغام دیں گے۔
.