• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس نے شرمندہ شرمندہ لہجے میں مجھ سے معذرت کی اور کہا کہ کئی ماہ کی دوڑ دھوپ کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے آپ کے بارے میں جو دعویٰ کیا تھا وہ حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔ ایک معروف ٹی وی اینکر صاحب مجھے اپنی لمبی چوڑی تحقیقات کی داستان سنا رہے تھے جس کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ 2007میں پرویز مشرف نے اسلام آباد کی لال مسجد میں آپریشن کا حکم حامد میر کے مشورے پر دیا تھا۔ میں نے ٹی وی اینکر سے پوچھا کہ آپ اتنے پڑھے لکھے اور سمجھدار انسان ہیں۔ آپ نے یہ کیسے فرض کرلیا تھا کہ ملک کا باوردی صدر ایک صحافی کے کہنے پر اتنا بڑا فیصلہ کرسکتا ہے؟ ٹی وی اینکر صاحب نے بتایا کہ کچھ ماہ قبل انہیں ان کے ادارے کے مالک نے پرویز مشرف کا انٹرویو کرنے کا حکم دیا۔ انٹرویو کا وقت طے ہو چکا تھا اور سوالات بھی طے شدہ تھے۔ اینکر صاحب کو تاکید کی گئی کہ جب مشرف صاحب حامد میر کے بارے میں کچھ کہیں تو ان کو بالکل نہ ٹوکا جائے۔ انٹرویو ہو گیا اور مشرف صاحب نے دعویٰ کیا کہ 2007میں حامد میر نے این ڈی یو اسلام آباد میں انہیں لال مسجد میں آپریشن کا مشورہ دیا لیکن جب آپریشن کردیا گیا تو حامد میر نے مخالفت شروع کردی۔ انٹرویو نشر ہونے کے بعد ٹی وی چینل کی انتظامیہ نے اپنے اینکر سے کہا کہ اب آپ ایک انویسٹی گیشن کریں اور ٹھوس ثبوتوں اور شہادتوں کی مدد سے مشرف صاحب کے دعوے کو سچ ثابت کریں۔ اینکر صاحب نے اپنی ٹیم کے ہمراہ 2007میں لال مسجد آپریشن سے پہلے اور بعد کے میرے تمام کالم پڑھ ڈالے۔ تمام ٹی وی شوز دیکھ ڈالے بلکہ جیو نیوز کے علاوہ دیگر ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں میری گفتگو بھی سن لی لیکن کہیں پر مجھے لال مسجد میں طاقت کے استعمال کی حمایت کرتے ہوئے نہ دیکھا۔ انہوں نے این ڈی یو کی اس تقریب کی ریکارڈنگ بھی دیکھ لی جس میں مشرف سے میرا مکالمہ ہوا تھا۔ اس میں سے بھی کچھ نہ ملا۔ پھر وہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے پاس جا پہنچے جو 2007میں مشرف کے بہت قریب تھے اور این ڈی یو کی تقریب میں موجود تھے۔ اس بیورو کریٹ نے اینکر بھائی کو مشورہ دیا کہ وقت ضائع نہ کرو۔ این ڈی یو کی تقریب میں اسلام آباد میں حکومت کی رٹ کی بات ہوئی تھی لیکن فوجی آپریشن کی بات نہیں ہوئی اور ویسے بھی ملک کا صدر اتنے بڑے فیصلے کی ذمہ داری ایک صحافی پر کیسے ڈال سکتا ہے؟ بیورو کریٹ نے یہ بھی بتایا کہ این ڈی یو کی تقریب سے دو سال پہلے 2005میں مشرف حکومت پی ٹی وی پر حامد میر کو ریاست مخالف قرار دے چکی تھی لہٰذا ایک ریاست مخالف صحافی کے مشورے پر ایک فوجی صدر لال مسجد میں آپریشن کیسے کر سکتا ہے؟ اینکر صاحب کو اپنی تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ 2005میں جب جیو نیوز کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں دہلی میں الطاف حسین کی ایک تقریر پر عمران خان نے تنقید کی تھی تو مشرف صاحب آگ بگولا ہو گئے تھے اور اس کے بعد مجھے پیمرا کے ذریعے کئی نوٹس دلوائے گئے۔ یہ نوٹس ایک پولیس افسر جاری کرتا تھا جس کے خلاف کرپشن کی کئی انکوائریاں ہو چکی تھیں۔ اینکر صاحب نے اپنے ٹی وی چینل کے مالک کو اپنی تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے خاموشی اختیار کرو۔ اینکر نے کہا کہ کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم مشرف صاحب کا ایک اور انٹرویو کریں اور ان سے کہیں کہ حامد میر کے بارے میں آپ کادعویٰ غلط نکلا! ٹی وی چینل کے مالک نے کہا کہ ایسی صورت میں ہمارے مخالف چینل کی گُڈی مزید اوپر چڑھ جائے گی اس لئے خاموشی اختیار کرو۔
شرمندہ ٹی وی اینکر نے کہا کہ وہ ایک کتاب لکھ رہا ہے اور اس کتاب کا ایک پورا باب مشرف کے بارے میں ہو گا جس میں وہ یہ پورا واقعہ بھی شامل کرے گا۔ وہ اپنی اس کتاب کے لئے میرا موقف معلوم کرنے آیا تھا۔ میں نے اسے فروری 2013میں لال مسجد انکوائری کمیشن کے سامنے دیئے جانے والے تحریری بیان کی نقل دے دی۔ اس بیان میں کہا گیا تھا کہ جنوری 2007میں اسلام آباد کی انتظامیہ نے کچھ مساجد کی تعمیر کو خلافِ قانون قرار دے کر شہید کر دیا۔ ردعمل میں لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور جامعہ حفصہؓ کی طالبات نے لال مسجد کے قریب ایک چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا۔ 20فروری 2007کو میں نے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم بعنوان..... ’’خودکش حملوں کاخاتمہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ میں لکھا کہ کچھ لوگ طالبات کے خلاف طاقت استعمال کرکے اسلام آباد کو بغداد بنانا چاہتے ہیں۔ طالبات کے خلاف طاقت کا استعمال دانشمندی نہیں ہو گا۔ ان کے ساتھ بات چیت کی جائے۔ کچھ دنوں بعد نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں جنرل مشرف نے کہا کہ اگر میں نے لال مسجد میں طاقت استعمال کی تو میڈیا فوج پر تنقید کرے گا حالانکہ امریکہ اور برطانیہ کا میڈیا اپنی فوج پر تنقید نہیں کرتا۔ میں نے پرویز مشرف کو کہا کہ عراق کی ’’ابو غریب‘‘ جیل میں امریکی فوج کے ظلم کو امریکی میڈیا نے بے نقاب کیا تھا۔ اگر پاکستانی میڈیا آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے تو اسے پاکستان کا دشمن نہ سمجھا جائے۔ 8مارچ 2007کو این ڈی یو کی مذکورہ تقریب پر میرا کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ ہماری فوج افریقی ملکوں میں جا کر وہاں کی مقامی آبادی پر گولیاں نہیں چلاتی بلکہ ان کے دل جیت کر داد پاتی ہے۔ ہماری فوج کو یہی کام پاکستان میں بھی کرنا چاہئے۔ لال مسجد انکوائری کمیشن کو دیئے جانے والے بیان میں مشرف دور کے سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کو گواہ بنا کر کہا گیا کہ ان کی درخواست پر میں نے کچھ علما کے ذریعے حکومت اور لال مسجد والوں کے درمیان مذاکرات شروع کرائے پھر ایک حکومتی وزیر طارق عظیم کو مسجد کے اندر لے جا کر مولانا عبدالعزیز اور عبدالرشید غازی کے ساتھ لائیو ٹی وی پروگرام کیا جس میں مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے پر اتفاق ہوا لیکن مشرف مذاکرات کو ناکام بناتے رہے کیونکہ وہ لال مسجد کے معاملے کو وکلا تحریک سے میڈیا کی توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ انکوائری کمیشن کو دیئے جانے والے بیان کے ساتھ میں نے اپنے 9کالموں اور 5ٹی وی پروگراموں کی سی ڈیز منسلک کیں جن میں عاصمہ جہانگیر اور اعتزاز احسن سے لے کر سمیحہ راحیل قاضی تک سب طاقت کے استعمال کی مخالفت کر رہے تھے۔ جنوری 2007سے جولائی 2007تک لال مسجد میں جو کچھ ہوا اس پر کئی لوگوں نے تنقید کی لیکن مولانا عبدالعزیز کے ناقدین بھی مسجد میں طاقت کے استعمال کے مخالف تھے۔ مشرف نے لندن میں اپوزیشن کی اے پی سی سے توجہ ہٹانے کے لئے لال مسجد پر دھاوا بول دیا اور آج یہ بہادر کمانڈو آپریشن کی ذ مہ داری مجھ پر ڈال رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کل کو وہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال دے کیونکہ آج کل موصوف جس عالم کیف و مستی میں رہتے ہیں وہاں ان سے کسی بھی وقت کچھ بھی کر دینے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ میں نے یہ تفصیلات اپنے دفاع میں نہیں لکھیں بلکہ آپ کو یہ بتانے کے لئے لکھی ہیں کہ آج کل اکثر ٹی وی چینلز سچ کے پیچھے نہیں دوڑتے بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے دوڑتے ہیں اور اس دوڑ میں سچائی کو بھی روند ڈالتے ہیں لیکن سچائی کبھی نہیں مرتی اور بار بار سر اٹھاتی رہتی ہے۔

.
تازہ ترین