• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانی فطرت بہت سے خصائل کا مرکب ہے اور ان میں ایک اہم خصوصیت لالچ و حرص بھی ہے۔ قوم صحیح معنو ں میں قوم اسی وقت بنتی ہے جب اس کے افراد ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر قومی مفاد کو ذہن میں رکھیں اور قومی مفاد کو ذاتی مفادات پرترجیح دیں۔ قومی مفاد کوترجیح دینا ہی ایثار او ر قربانی کہلاتا ہے۔ جس قوم میں جتنا ایثار کاجذبہ موجزن ہو، وہ اسی قدر مضبوط اورمتحد قوم سمجھی جاتی ہے۔ تحریک ِ پاکستان کے مطالعے کے دوران مجھے احساس ہواکہ تحریک کے فیصلہ کن مرحلہ میں ہندوستان کے مسلمانوں میںقومی ایثار کاجذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا اور اسی جذبے کے تحت مسلمان آبادی کے چھوٹے صوبوں نے بڑے صوبوں کے لئے قربانی دی تھی۔ قوم کو متحد کرنے کا کارنامہ محمد علی جناح قائداعظمؒ نے سرانجام دیا ورنہ ان کی قیادت سے قبل قوم سیاسی طور پر منقسم تھی۔ قرارداد پاکستان اس قومی اتحاد کا نقطۂ عروج تھا۔ میرا مطالبہ اور مشاہدہ شاہد ہے کہ قوموں میں اتحاد اور ایثار کا جذبہ اہل، باکردار اورعظیم قیادت کا مرہون منت ہوتا ہے اور اگر اسے قومی نصاب، معاشرتی کلچر اور ملکی اقدارکاحصہ نہ بنایا جائے تو یہ جذبہ ریت کی مانند ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے۔ میں نے عام طور پر ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں میں قومی ایثاراور قانون پرعملداری کا رجحان دیکھا ہےکیونکہ یہ ان کے معاشرتی کلچر کاناگزیر حصہ بن چکا ہے اور اس کی بہترین مثالیں ان ممالک کی قیادت خودقائم کرتی ہے۔
میں نے یہ مشاہدہ بھی کیا ہے کہ جن ترقی پذیر ممالک کو عام طور پر طویل عرصہ کے لئے اہل قیادت نصیب نہ ہو اور جہاں قیادت کی کرپشن کہانیاں زبان زدعام ہوں ان قوموں میں لوٹ مار اور لاقانونیت کا رجحان تیزی سے فروغ پاتا ہے جس کے نتیجے کے طور پرقومی اتحاد و ایثار کے جذبے کمزور پڑ جاتے ہیں اور لوگ اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کوقومی مفادات پر ترجیح دینے لگتے ہیں۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران پاکستانی قوم کے اخلاقی کردارکومسلسل تنزل کا شکاردیکھاہے۔ کرپشن، لاقانونیت، علاقائیت اور فرقہ واریت کارجحان بڑھتا اور پھیلتا ہی رہاہے۔ ان رجحانات کے سیلاب کےسامنے بند باندھنے کے لئے جس طرح کی سیاسی، مذہبی اور علمی قیادت کی ضرورت ہے، وہ دور دور تک نظر نہیں آتی۔ چلئے اس موضوع پر پھرکبھی۔ آج اتنا ہی کافی ہے۔ مطلب آپ کےتدبر کو دعوت دینا ہے کہ ذرا اِدھر بھی توجہ دیجئے۔
ہندوستان نے صدیوں تک بادشاہت اور پھر ایک صدی کے لگ بھگ انگریز کی غلامی برداشت کی۔ بادشاہت اور غلامی میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہوتی ہے کہ دونوں طبقاتی نظام رائج کرتی اور ان کی حفاظت کرتی ہیں۔ یعنی وہ طبقے جو حکومت کے لئے تقویت کا باعث اور ذریعہ ہوتے ہیں ان کے لئے مخصوص مفادات کا نظام وضع کیا جاتا ہے اور ان کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لئے انہیں ایسی مراعات دی جاتی ہیں جن سے عام شہری یا رعایا محروم ہوتے ہیں۔ مغل بادشاہوں سے لے کر برطانوی حکمرانوں تک ساری حکومتوں کو ایسی کلاسز، گروہوں اور طبقوں کی ضرورت تھی جو اس کی گرفت مضبوط رکھنے میں مدد کریں اور اس سے وفاداری کا دم بھرتے رہیں۔ کئی صدیوں پر محیط بادشاہت نے پورے ملک میں اس طرح کے جاگیرداری نظام کو مسلط کیا جو حکومت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتا تھا اور بادشاہت کی عملداری کویقینی بناتا تھا۔
انگریز پڑھے لکھے اور تجربہ کار حاکم تھے۔ انہوں نے جاگیرداری سسٹم کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ فوجی اور سول بیوروکریسی کا نظام متعارف کروایا جس نے تمام مصنفین کی متفقہ رائے کے مطابق برطانیہ کے لئے آہنی نظام (Steel Framework) کا کام دیا۔ سول بیوروکریسی کاجال نچلی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک پھیلا ہوا تھا اور ملکی دفاع کے علاوہ سول انتظامیہ کی مدد کے لئے ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج موجود تھی جو جلیانوالہ باغ کے سانحے کی مانند انگریز حاکم کے حکم پر اپنے ہی ہم وطنوں کا قتل عام کرنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتی تھی۔ سول بیوروکریسی اور فوج برطانوی حکومت کے دو مضبوط ترین ستون تھے جن کی وفاداری کو قائم و دائم رکھنےکے لئے انہیں مختلف مراعات اور نوازشات سے نوازا جاتا تھا۔ زرعی زمینوں کی سول اور فوجی افسران کو الاٹمنٹ بھی اسی نظام کا حصہ تھی اوراس مقصد کے لئے برطانوی حکومت نےباقاعدہ قانون اور ضابطے بنارکھے تھےاور اہلیت کامعیار مقرر کر رکھاتھا۔ ظاہر ہے کہ اہلیت کامعیار کارکردگی ہوتا ہے۔کارکردگی کامفہوم اور تصور غلامی میں کچھ اور ہوتاہے اور آزادی کے بعد کچھ اورہوتاہے۔ انگریزوں کا بنایا ہوا یہ نظام صرف ہمارے لئےتھا۔ان کے اپنے ملک انگلستان میں سرکاری ملازمین کو شاندار کارکردگی پر خطابات اور اعزازات دیئے جاتے ہیں،زمینیں اور جاگیریں الاٹ نہیں کی جاتیں بلکہ تلخ سچائی تو یہ ہے کہ ایسا کسی بھی جمہوری معاشرے میں نہیں ہوتا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ پر پنشن گریجوٹی علاج معالجے کی سہولتیں ملتی ہیں اور یہی سرکاری ملازمت کاصلہ سمجھاجاتا ہے..... غلامی کے دور میں ہندوستان کی آبادی کم تھی اور غیرآباد زمین کی فراوانی تھی۔ برطانوی حکومت سول افسران اور فوجی ملازمین کوریٹائرمنٹ پر فراخ دلی سے زمینیں الاٹ کرتی تھی۔ اب آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور ریاستی وسائل قلت کا شکار ہیں۔ اس لئے حکومتی سطح پر پرانی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کو جمہوری ملک بننا ہے تو پھر طبقاتی اور مراعاتی نظام کو جمہوری تقاضوں کے تابع کرنا چاہئے کیونکہ جمہوری نظام سارے شہریوں کے لئے ایک جیسے مواقع اور مساوی سلوک کا تقاضا کرتا ہے۔
میری معلومات کے مطابق قیام پاکستان کے چند برسوں بعد سول افسران کو زرعی اراضی الاٹ کرنے کا سلسلہ بند کردیا گیا تھا، ماسوا ان چندکیسز (Cases) کے جہاں کسی نےکوئی غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دیا۔ میں نے سرکارکی 39سالہ ملازمت میں اور پھراس کے بعد 12 سال ریٹائرمنٹ میں ایک بھی ایسی مثال نہیں دیکھی جہاں کسی سول افسر کو زرعی اراضی کاانعام دیا گیا ہو۔ سول افسران کو ایک رہائشی پلاٹ ملتاہے وہ بھی سب کو نہیں۔ جون 2006سے وفاقی سیکرٹریوں کو جرنیلوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دو پلاٹوں کی اجازت دی گئی۔ ہمارےزمانے میں فقط ایک پلاٹ پر حق ہوتا تھا۔ مجھے بحیثیت وفاقی سیکرٹری ریٹائرمنٹ کے بعد ایک پلاٹ الاٹ ہواجس کا قبضہ آج تک نہیں ملا۔ میرے گریڈ کے جرنیلوں کوڈی ایچ ایز میں چارچار پلاٹ بھی ملتے ہیں، زرعی زمین اور کمرشل پراپرٹی بھی..... ڈی ایچ اے میں پلاٹو ںکی الاٹمنٹ پر اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ فوج کی اپنی سلطنت ہیں لیکن زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ کے سلسلے پرنظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ ریاستی وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، آبادی بڑھ رہی ہے اور جمہوری نظام کے تقاضوں کےمطابق طبقاتی نظام کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ طبقاتی مفادات پر اعتراض ناگوار گزرتا ہے، اس کے سینکڑوں جواز ڈھونڈے جاتے ہیں لیکن مضبوط و مستحکم قوم اور جمہوری معاشرہ وہی ہوتا ہے جس میں ذاتی مفاد کو قومی مفاد کے لئے قربان کردیا جائے۔ باقی آئندہ ان شاء اللہ



.
تازہ ترین