• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عدلیہ،قومی احتساب بیورو اور محکمہ اینٹی کرپشن کے ہوتے ہوئے صوبائی سطح پر احتساب کمیشن بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی بجائے مذکورہ اداروں اور بالخصوص صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن کو درست کرنے کی ضرورت تھی لیکن خیبر پختونخوا کے حکمران عمران خان کو شوق تھا کہ اپنا احتسابی نظام بنادیں۔ اپوزیشن اور ہم جیسے طالب علموں کے احتجاج کے باوجود اس کے لئے من مانے قواعد و ضوابط بنائے گئے۔ عمران خان صاحب کے کرکٹ کے دنوں کے دوست جنرل (ر) حامد خان اس کے سربراہ بنائے گئے حالانکہ اس وقت ان کی اہلیہ صوبائی حکومت میں سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی تھیں۔ اس کمیشن نے سابق حکومت کے کسی خاص عہدیدار کا محاسبہ کیا اور نہ موجودہ حکومت کا۔ اے این پی کے سید معصوم شاہ کو بھی قومی احتساب بیورو نے گرفتار اور پھر پلی بارگین کے ذریعے رہا کیا۔ عمران خان کے احتساب کمیشن نے ایک کارنامہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر پرویز خٹک کے حلقے میں ان کے حریف لیاقت شباب کی گرفتاری کا سرانجام دیا اور دوسرا ضیا اللہ آفریدی کی پرویز خٹک سے عمران خان کی موجودگی میں لڑائی کے بعد گرفتاری کا۔ پھر جب اس احتساب کمیشن نے موجودہ حکمرانوں تک بھی سلسلہ دراز کرنے کی کوشش کی تو اس کے ہاتھ پائوں کاٹ دئیے گئے اور جنرل حامد خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔ ان کو مستعفی ہوئے ایک سال کا عرصہ گزر گیا لیکن دوسرا ڈی جی احتساب کمیشن مقرر نہیں کیا جارہا جبکہ ا سکروٹنی کمیٹی کے سربراہ اعجاز قریشی بھی انتظار کرتے کرتے احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔ تحریک انصاف سے انصاف کی توقع تھی اور نہ ہے لیکن افسوس کہ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق جو دوسروں کے احتساب کے بہت متمنی نظر آتے ہیں، اپنے صوبے میں احتساب کے نام پر اس مذاق پر خاموش ہیں بلکہ اپنی دو وزارتوں کی خاطر اس حکومت کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کا محکمہ اینٹی کرپشن تحریک انصاف کی حکومت میں بھی اسی طرح خود کرپشن کا ذریعہ بنا ہے جس طرح کہ ماضی کی حکومتوں میں ہوا کرتا تھالیکن پرویز خٹک صاحب نے اس کو بھی مٹھی میں بند کرنا ضروری سمجھا۔ ایک پولیس افسر جن کا نام پولیس بھرتیوں کے اسکینڈل میں ان کے ساتھ لیا جاتا تھااور جو گزشتہ تین سال ان کے پی ایس او رہے، کو اس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ مذکورہ پوسٹ پر تاریخ میں پہلی بار کسی پولیس افسر کو تعینات کیا گیا ہے اور جب ان کی تقرری کی سمری چیف سیکرٹری نے اس نوٹ کے ساتھ واپس کردی کہ یہ پوسٹ پولیس افسر نہیں بلکہ ڈی ایم جی افسر کے لئے ہے تو وزیراعلیٰ نے صوابدیدی اختیارات کے تحت Rules relaxed لکھ کر ان کی سمری دوبارہ بھجوادی۔ وہ افسر عملاًحسب سابق وزیراعلیٰ کے ساتھ ڈیوٹی کررہے ہیں لیکن اینٹی کرپشن کے سربراہ بھی بن گئے۔ گزشتہ روز (28 جنوری) کو جب عمران خان صاحب پشاور کا دورہ کررہے تھے تو ڈی جی اینٹی کرپشن حسب سابق پروٹوکول کی ڈیوٹی میں مصروف نظر آئے۔ عمران خان نے ایک لمحے کے لئے یہ سوال اٹھایا کہ صوبے کے محتسب اعلیٰ ان کے ساتھ پروٹوکول کی ڈیوٹی کیوں کررہے ہیں۔ خان صاحب سے اس طرح کے اقدام کی توقع تھی اور نہ ہے لیکن افسوس کہ ملک میں احتساب کے متمنی سراج الحق نے بھی کبھی اعتراض نہیں اٹھایا کہ ان کے صوبے میں یہ ظلم کیوں ہورہا ہے۔ ظاہر ہے خان صاحب کی ناراضی کا خطرہ ہے جو وہ کبھی نہیں مول سکتے۔
جب جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت بنارہی تھی تو آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی بھی اس اتحاد میں شامل تھی۔ کچھ عرصہ بعد اختیارات کے معاملے پر تعلقات خراب ہوئے تو تحریک انصاف نے قومی وطن پارٹی سے جان چھڑانے کی ٹھان لی۔ کسی اور نے نہیں خود عمران خان صاحب نے جلسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں الزام لگایا کہ قومی وطن پارٹی کے وزراء کرپشن میں ملوث تھے۔ اس الزام کی بنیاد پر ان کو حکومت سے نکال دیا گیا اور پھر دھرنوں کے دوران بھی ان کی کردار کشی جاری رکھی لیکن ان وزراء کے خلاف کہیں اور تو کیا اپنی حکومت کے احتساب کمیشن میں بھی کیس رجسٹرڈ نہیں کیا گیا۔ الٹا قومی وطن پارٹی کے وہ دونوں سابق وزراہتک عزت کا دعویٰ کرکے عمران خان کے خلاف عدالت میں گئے۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے ساتھ ذرا سخت بارگیننگ کی تو پرویز خٹک صاحب نے آفتاب شیرپائو کی جماعت کو واپس لانے کے لئے کوششیں شروع کردیں۔ جہانگیر ترین کی قیادت میں ان کے گھر پر جرگے بھیجے گئے۔ آفتاب شیرپائو نہیں مان رہے تھے اور اب کی بار تحریری معاہدے کا مطالبہ کیا۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے ان کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا اور منت ترلا کرکے ان کو حکومت میں واپس لے آئے۔ المیہ یہ ہے کہ سراج الحق صاحب نے قومی وطن پارٹی کو حکومت سے نکالنے پر اعتراض کیا اور نہ ان کو واپس لانے پر لیکن پھر بھی انہیں اصرار ہے کہ ان کی سیاست اصولی سیاست ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ کسی ماتحت ادارے کے سربراہ نے اپنے ہی محکمے کے وزیر کے خلاف سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ کرکے اخبارات میں اشتہار دیا ہو لیکن بدلے ہوئے خیبر پختونخوا میں ہم نے یہ مظاہرہ اس وقت دیکھا کہ جب بینک آف خیبر کے ایم ڈی نے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے وزیرخزانہ مظفر سید کے خلاف نصف درجن اخبارات میں اشتہار شائع کروایا۔ اس میں انہوں نے اپنے وزیر پر بینک کے وسائل کے ضیاع اور بے قاعدگیوں کے الزامات لگائے۔ یہ اشتہار بینک کے ایم ڈی نے عمران خان صاحب سے مشاورت کے بعد ہی شائع کرایا تھا۔اسکے جواب میں جماعت اسلامی نے جوابی الزامات کا اشتہار شائع کیا۔ بعد میں وزیراعلیٰ نے مک مکا کراکر ایم ڈی سے معذرت کروائی لیکن تادم تحریر وہ شخص بینک کے ایم ڈی ہیں۔ اب اس معاملے کو بھی جماعت اسلامی دفن کرنا چاہتی ہے کیونکہ خان صاحب کے ناراض ہونے اور حکومت کے چھن جانے کا خطرہ ہے۔ جاوید نسیم کو پشاور کے لوگوں کی قیادت کا مستحق کسی اور نے نہیں بلکہ خود عمران خان نے قرار دیکر پارٹی ٹکٹ سے نوازا تھا۔ وہ پریس کانفرنسز میں اور میرے ٹی وی پروگرام میں الزام لگا چکے کہ انہوں نے آٹھ وزراکی کرپشن کی فائلیں عمران خان کو دی تھیں۔ تماشا یہ ہے کہ وہ جاوید نسیم آج دو سال گزرنے کے بعد بھی اسی طرح اسمبلی میں تحریک انصاف کے نمائندے کے طور پر بیٹھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کا الزام درست تھا تو پھر اس پر کیا کارروائی ہوئی اور اگر غلط تھا تو پھر انکے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ لیکن یہ سوال سراج الحق صاحب نہیں اٹھارہے ہیں کیونکہ اتحاد کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
عمران خان صاحب نے ٹی وی انٹرویوز میں وعید سنائی کہ وہ دو وزرا کو کرپشن کے الزام میں فارغ کررہے ہیں۔ اگلے دن انہوں نے وزیر صحت شوکت یوسفزئی اور یاسین خلیل کو کابینہ سے نکال دیاحالانکہ میری معلومات کے مطابق شوکت یوسفزئی کو جہانگیر ترین صاحب کے احکامات کی عدم تعمیل کی وجہ سے فارغ کردیا گیا تھا۔ وزارت سے فارغ کرنے کے بعد نہ تو شوکت یوسفزئی کے خلاف مزید کوئی کارروائی ہوئی اور نہ یاسین خلیل کے خلاف۔ شوکت یوسفزئی کو اس کے بعد ایک اور پارٹی عہدہ بھی دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے کرپشن نہیں کی تھی تو پھر انہیں کرپشن کا الزام لگا کر اور وزارت سے ہٹا کر رسوا کیو ں کیا گیا اور اگر واقعی انہو ں نے ایسا کیا تھا تو پھر ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ لیکن یہ سوال محترم سراج الحق صاحب نے اٹھایا ہے اور نہ اٹھائیں گے کیونکہ سوال کے پی حکومت کی دو وزارتوں کا ہے۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ان سب کچھ پر مجرمانہ خاموشی کے بعد سراج الحق صاحب کے پاس کیا اخلاقی جواز رہ جاتا ہے کہ وہ باقی ملک میںشفاف احتساب کا مطالبہ کریں۔
شاید ایسی ہی صورت حال دیکھ کر شاعر نے کہا تھا کہ
ہے جناب شیخ کا فلسفہ بھی عجیب سارے جہاں میں
جو وہاں پیو تو حلال ہے، جو یہاں پیو تو حرام ہے

.
تازہ ترین