• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16 دسمبر 1971ء کے روز اصلی یعنی پرانا پاکستان ٹوٹا تھا اور اسی روز نیا پاکستان بنا تھا۔ پرانے پاکستان میں پانچ فیڈ ریٹنگ یونٹ یعنی صوبے تھے۔ نئے پاکستان میں چار فیڈریٹنگ یونٹ یعنی چار صوبے ہیں۔ نئے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی ناجائز یعنی غیر قانونی تھی۔ آپ بجا طور پر پوچھ سکتے ہیں کہ نئے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کس لحاظ سے غیر قانونی تھی؟ یہ بات ثابت کرنے کے لئے لمبی چوڑی دستاویزات کی ضرورت نہیں ہے۔ سادہ سی بات ہے۔ کیا آپ کے نئے پاکستان کے انتخابات نئے پاکستان میں ہوئے تھے؟ میں پھر سے سوال دہراتا ہوں۔ کیا نئے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے لئے انتخابات نئے پاکستان میں ہوئے تھے؟ نہیں نا! تو پھر نئے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے لئے انتخابات کہاں ہوئے تھے؟ آپ لازماً کہیں گے کہ نئے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے لئے انتخابات پانچ صوبوں والے پرانے پاکستان میں ہوئے تھے۔ جواب جزوی طور پر درست ہے۔ وہ انتخابات تب پانچوں صوبوں والے پرانے پاکستان کے لئے ہوئے تھے۔ تب کوئی نہیں جانتا تھا کہ پرانے پاکستان میں ہونے والے وہ انتخابات پاکستان کے لئے آخری انتخابات ثابت ہوں گے اور اس کے بعد پرانا پاکستان ٹوٹ جائے گا اور چار صوبوں والا ایک نیا پاکستان وجود میں آئے گا۔ پرانے پاکستان میں منعقدہ انتخابات کے بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔ مغربی پاکستان سے لفظ مغربی اخذ کر کے نیا چار صوبوں والا پاکستان بنایا گیا۔ پرانا پاکستان ٹوٹتے ہی پرانے پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج خود بخود قانونی طور پر منسوخ اور غیر موثر ہوچکے تھے۔ نئے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی ایک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والے عدم موجود ملک میں ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے والے ارکان پر مبنی تھی جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ ہونا تو یوں چاہئے تھا کہ نئے پاکستان میں ازسرنو انتخابات کروائے جاتے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ایک جائز قانون ساز اسمبلی بنائی جاتی مگر یہ ہو نہ سکا۔ ایک غیر قانونی اسمبلی نے نئے پاکستان کا آئین بنایا۔ یہ تھی نئے پاکستان کی پہلی کہانی۔ نئے پاکستان کی بنیاد غلط پڑ گئی۔
نئے پاکستان کی دوسری کہانی سننے سے پہلے پرانے پاکستان کی ایک کہانی سن لیجیے۔ پرانے پاکستان میں جسٹس محمد بچل میمن کے نام نامی اسم گرامی سے سندھ ہائی کورٹ کے ایک معزز جج ہوا کرتے تھے۔ وہ اپنی عادات اور رویے سے باور کروا چکے تھے کہ ایک جج کو پبلک لائف، میل جول، بیورو کریسی سے مراسم اور تحفے تحائف لینے دینے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ دوست احباب تو دور کی بات ہیں جسٹس محمد بچل میمن قریبی رشتہ داروں سے بھی کم کم ملتے تھے، بلکہ نہیں ملتے تھے۔ سنگین مقدمات کے کیس کی فائلیں گھر لے آتے تھے۔ رات رات بھر کیس پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ ایسے میں کیا مجال کہ کوئی ان کے کمرے میں قدم رکھے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا تھا کہ سوچتے سوچتے وہ کمرے میں چہل قدمی کرتے تھے۔ جی چاہا تو گھر سے باہر چلے جاتے تھے۔ اگر بھولے سے گھر کا کوئی فرد کمرے میں آ جائے تو اس کو رائٹنگ ٹیبل پر تختی دکھاتے تھے جس پر لکھا ہوتا تھا، Pleae do not disturb me مجھے پریشان مت کرو۔ عدالت میں مقدمے کے دوران دونوں طرف کے وکیلوں کے دلائل غور سے سنتے تھے۔ ان سے خود بحث و مباحثہ نہیں کرتے تھے۔ ابہام کی صورت میں سوال پوچھ لیتے تھے۔ عدالت میں موجود لوگوں کو محض ہٹانے کے لئے وکیلوں پر طنزیہ فقرے نہیں کستے تھے۔ ضرورت سے زیادہ ایک لفظ نہیں بولتے تھے۔
ایک مرتبہ کسی سنگین نوعیت کے مقدمے پر غور وفکر کرتے ہوئے جسٹس محمد بچل میمن گھر سے باہر نکل گئے۔ ان کی سرکاری کوٹھی میکلیو روڈ پر ہوا کرتی تھی۔ میکلیو روڈ کو اب آئی آئی چند ریگر روڈ کہتے ہیں۔ جب جسٹس محمد بچل میمن گھر سے نکلے تب رات کے دو ڈھائی بج رہے تھے۔ وہ ہاتھ میں چھڑی پکڑے، سوچ میں ڈوبے ہوئے چلتے رہے۔ ایس ایم کالج اور ڈی جے سائنس کالج سے گزرتے ہوئے جب پاکستان چوک کے قریب پہنچے تو دو پولیس کے سپاہیوں نے انہیں روکا۔ ان سے پوچھ گچھ شروع کردی، کون ہو؟ کہاں جارہے ہو؟ کیا کرنے جارہے ہو؟ جسٹس محمد بچل میمن نے ان کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ وہ اپنی سوچ میں ڈوبے رہے۔ سپاہیوں نے جسٹس محمد بچل میمن کو رام باغ تھانہ لاکر لاک اپ میں بند کردیا۔ رام باغ کو اب آرام باغ کہتے ہیں۔
جسٹس محمد بچل میمن کو گھر میں نہ پاکر ان کی فیملی کو تشویش ہوئی، آدھی رات سے صبح تک وہ ان کو ڈھونڈتے رہے۔ مایوس ہو کر انہوں نے انسپکٹر جنرل یعنی آئی جی کو مطلع کیا۔ ان دنوں کراچی کی آبادی چند لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ آئی جی نے کراچی کے تمام تھانوں کو ہائی الرٹ کردیا۔ ایسے میں رام باغ تھانے کا ایس ایچ او تھانے پہنچا۔ جسٹس محمد بچل میمن کو لاک اپ میں دیکھ کر اس نے اپنا سر پیٹ لیا۔ جسٹس کے پیروں پر گر پڑا، گڑگڑاتا رہا۔ سرکار، سپاہی بڑے جاہل ہیں انہوں نے آپ کو نہیں پہچانا۔ جسٹس صاحب کو عزت احترام کے ساتھ گھر چھوڑ آیا۔ آئی جی نے رام باغ تھانے کے پورے عملہ کو معطل کردیا۔ دوسرے روز جسٹس صاحب نے آئی جی کو عدالت میں حاضر ہونے کا نوٹس بھیجا، آئی جی پیش ہوئے۔ جسٹس محمد بچل میمن نے آئی جی سے پوچھا، فرض شناسی کے صلے میں آپ کیا اپنے عملے کو معطل کر دیتے ہیں؟ مگر نئے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، کسی مقدمہ میں ملزم کو سزائے موت کا فیصلہ سنانے سے پہلے اور سزائے موت کا فیصلہ سنانے کے بعد نئے پاکستان کے کسی جج سے نیند کوسوں دور چلی نہیں جاتی۔وہ رات بھر سکون کی نیند سو سکتا ہے اور جب گھر سے نکلتا ہے تو گن مین یعنی باڈی گارڈ اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔

.
تازہ ترین