• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چھوٹا ہو یا بڑا، سب کے لئے مادرانہ شفقت اور محبت۔ اور اس کے ساتھ ہی پرانے بزرگوں والی عاجزی اور انکساری۔ یہ تھیں ہم سب کی بانو آپا۔ نرم خو، نرم گفتار۔ خاموشی اور توجہ سے سب کی باتیں سننا۔ اگر کہیں کسی بات سے اختلاف ہو تو بڑے پیار سے اس کا اظہار کرنا۔ افسانہ نگار تھیں، ناول نگار تھیں، ڈرامہ نگار تھیں۔ ہر شعبے میں عام مقبولیت حاصل کی۔ ان کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ کا تو بیسواں ایڈیشن شائع ہونے والا ہے۔ لیکن ان کے اندر ’’ہم چناں دیگرے نیست‘‘ کے دعوے کا کہیں شائبہ تک نہیں تھا۔ اس کی وجہ اشفاق احمد تھے۔ بانو آپا نے اشفاق احمد کے لئے اپنی ذات کی نفی کر دی تھی۔ ان کے لئے اشفاق احمد ہی سب کچھ تھے۔ وہ کسی اور کو مانتی ہی نہیں تھیں۔ قرۃ العین حیدر کا انتقال ہوا تو بی بی سی کے نمائندے نے ا ن کی رائے معلوم کی۔ اس پر انہوں نے کہا ’’میں تو صرف اشفاق احمد کے بارے میں بات کر سکتی ہوں، کسی اور کے بارے میں نہیں‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اشفاق احمد کے بارے میں باتیں شروع کر دیں۔ شاید اشفاق احمد کی وجہ سے ہی وہ مرد کی بالادستی پر یقین رکھتی تھیں۔ ٹیلی وژن پر ان کا جو آخری انٹرویو ہوا تھا اس میں انہوں نے اس کی پوری وضاحت بھی کر دی تھی۔ بانو آپا خاموش اور کبھی کبھی کسی بات کا جواب دینے والی، اور اشفاق احمد ایک ہی ہنگامہ پسند آدمی۔ ان کے گھر ’’داستان سرائے‘‘ نے کیسی کیسی ہنگامہ خیز محفلیں نہیں دیکھیں۔ کبھی وہاں بچوں کے لئے جادو کے کھیل دکھانے والے آ رہے ہیں تو کبھی بہت ہی عالم فاضل قسم کی شخصیت رونق افروز ہو رہی ہے۔ کبھی کسی بالکل ہی جدید موضوع پر کوئی بہت ہی ماڈرن قسم کا نوجوان بات کر رہا ہے۔ اب حال یہ ہوتا تھا کہ بزرگ قسم کی شخصیت وہاں بیٹھی ہیں اور اشفاق احمد محفل میں موجود لوگوں کو اکسا رہے ہیں کہ سوال کرو۔ اب سوال جواب ہو رہے ہیں۔ گرما گرم بحثیں ہو رہی ہیں۔ سب بول رہے ہیں مگر بانو آپا ہونٹوں پر شفقت بھری مسکراہٹ سمیٹے خاموشی سے دیکھ رہی ہیں۔ اور جب ممتاز مفتی لاہور آتے تو ایک اور قسم کی محفل جمتی۔ عام طور پر یہ بہار کا موسم ہوتا تھا۔ گھر کے سبزہ زار میں ایک طرف کوئلوں والی انگیٹھی رکھی جاتی اور اس کے ساتھ خاص’’کبابیوں‘‘ کی طرح اشفاق احمد بیٹھتے۔ اب اشفاق احمد کباب لگا رہے ہیں اور سبزہ زار میں دور و نزدیک بیٹھے احباب کباب کھا رہے ہیں۔ کھانے والوں میں سے ہی ایک ایک اٹھتا ہے اور انگیٹھی میں کوئلے دہکانے کے لئے پنکھا جھلنے لگتا ہے۔ اس وقت تو خیال نہیں آتا تھا، مگر اب سوچتا ہوں کہ اس وقت بانو آپا کہاں ہوتی تھیں؟ ان کے ساتھ صرف سلام دعا ہی ہوتی تھی۔ کسی کو ان کا خیال ہی نہیں آتا تھا۔ کچھ خواتین ان کے ساتھ بیٹھ جاتی تھیں اور مرد کباب کھانے میں مگن رہتے تھے۔
بانو آپا نے افسانے لکھے، ریڈیو اور ٹی وی ڈرامے لکھے ناول لکھے۔ سب انہی کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اسٹیج کے لئے جو ڈرامے لکھے ان کا ذکر بہت کم کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کے اسٹیج ڈرامے اپنی کرافٹ کے اعتبار سے انتہائی کامیاب ڈرامے ہیں۔ بانو قدسیہ نے یہ ڈرامے اس وقت لکھے جب لاہور میں اسٹیج کے لئے طبع زاد ڈرامے نہیں لکھے جا رہے تھے بلکہ انگریزی سے اخذ کئے جا رہے تھے یا ترجمہ کئے جا رہے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ بانو قدسیہ نے اسٹیج کے لئے ڈرامے کم لکھے۔ اگر وہ اس طرٖف توجہ دیتیں تو آج اردو زبان اسٹیج ڈراموں میں ثروت مند ہوتی۔ ان کا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ سب سے زیادہ مقبول ہوا۔ اور جیسے پہلے ذکر ہوا قریب قریب ہر سال ہی اس کا نیا ایڈیشن شائع ہو جاتا ہے۔ اور یہ کئی جگہ نصاب میں بھی شامل ہے۔ یہ ناول بانو قدسیہ کے نظریات اور زندگی کا فلسفہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہ حلال و حرام کا فلسفہ ہے۔ بانو آپا سمجھاتی ہیں کہ جو حرام کھاتا ہے یا حرام کماتا ہے وہ اس کی جین میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور نسل در نسل اس کا پیچھا کرتا ہے۔ اب پڑھنے والے اس فلسفے کو سمجھتے ہیں یا نہیں؟ لیکن ناول میں ان کی دلچسپی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔
اشفاق احمد کے انتقال کے بعد بانو آپا گھر میں محصور ہو کر رہ گئی تھیں۔ اب وہ اپنی عقیدت مندوں کے ہجوم میں تھیں۔ یہ عقیدت مند خواتین شام کو ان کے گھر جمع ہوتی تھیں۔ بہت کمزور ہو گئی تھیں۔ گھر سے کم ہی نکلتی تھیں۔ اگر کہیں جاتیں تو وہیل چیئر پر۔ جہاں بھی جاتیں ان کا سب سے چھوٹا بیٹا اثیر خاں انہیں وہیل چیئر پر لے جاتا۔ آخری بار میں نے انہیں انتظار حسین کے جنازے پر دیکھا تھا۔ وہ اتنی کمزوری کے باوجود وہیل چیئر پر وہاں آئی تھیں۔ چلئے، اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ پچھلے اتوار کو بانو قدسیہ کے ساتھ اشفاق احمد بھی آخری بار ہم سے رخصت ہو گئے۔ اشفاق احمد کے انتقال کے بعد بھی’’داستان سرائے‘‘ میں بانو قدسیہ اکیلی نہیں رہتی تھیں، ان کے ساتھ اشفاق احمد بھی رہتے تھے۔ اب وہ دونوں ہی رخصت ہو گئے۔ لیکن اس داستان سرائے میں جو داستانیں محفوظ ہو گئی ہیں وہ کبھی رخصت نہیں ہوں گی۔


.
تازہ ترین