• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’او پگلے! کوئی طوفان، کوئی خوفناک حادثہ، کوئی ہولناک واقعہ، کوئی کرب کے دوزخ سے نکلی ہوئی تاریخ بدلنے کی ساعت، کوئی ٹوٹتی زمین کی دہشت خیز آواز، کوئی ساکت ہوتی زندگی، کوئی پاکستان ٹیلی وژن کی اسکرین پر چہرے بدلتی ہوئی رات، کوئی اجتماعی سماعت شکن دھماکہ۔ کچھ بھی نہیں۔ کوئی تیز رفتار ریل گاڑی کسی ایسی سرنگ سے نہیں گزر رہی جِس کا دوسرا دہانا بند ہو۔ وسوسے نکال دو دماغ سے‘‘۔ میں نے ایک واہموں بھرے یعنی شیزو فرینک بوڑھے شاعر کو سمجھاتے ہوئے کہا مگر وہ میری بات سننے پرتیار ہی نہیں تھا۔ اس نے عنکبوت کی طرح اپنے گرد جو جالا بُن لیا تھا۔ اُس کیلئے اُس سے باہر قدم رکھنا بہت مشکل ہے۔ وہ ڈپریشن زدہ سوجے ہوئے ہونٹوں سے بولتا چلا جارہا تھا ’’اصطبل سے گھوڑے بھاگنے کی کوشش میں ہیں، گھونسلوں سے پرندے نکل آئے ہیں۔ دماغوں میں افراتفری کا عالم ہے۔ فضامیں ایک بے رونق سُرمئی سا بُجھا بُجھا رنگ پھیل رہا ہے۔ درختوں سے پتے گر چکے ہیں۔ سوکھی ٹہنیاں ساکت و جامد ہیں۔ مجھ جیسے استخوانی وجود اپنی پتھرائی ہوئی خشک آنکھوں میں دہشت بھر کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہر چیز پر کانٹوں کی باڑ لپٹتی جارہی ہے۔ تیز و تند زہریلی آندھیاں پیڑوں کو جڑ وں سے اُکھاڑ دینا چاہتی ہیں۔ خونی بگولے زندگی کو جکڑنے کے لئے موقع کی تلاش میں ہیں۔ میں ایک ہیبت ناک قہقہہ سن رہا ہوں۔ کیا یہ خوفناک قہقہے میری تاریخ بن جائیں گے۔ کیا زبانیں پتھر کی ہو جائیں گی۔ کیا آنکھیں پھیل کر باہر نکل آئیں گی۔ کیا زندگی کی رمق موت کی زردی میں بدل جائے گی۔ کچھ مجھے بتائو پلیز یہ کیا ہو رہا ہے۔ پاکستان کونسی دلدل میں اترتا چلا جارہا ہے‘‘۔
میں نے اسے پھر سمجھایا کہ تمہاری ذہنی حالت درست نہیں ہے۔ جائو کسی ڈاکٹر سے جاکر دوائی لو۔ کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں۔ الحمدللہ ہمارا پیارا پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن ہے وہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا کہ تم اتنی خوفناک اور ڈرائونی باتیں دماغ میں لائو۔ وہاں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہےہیں۔ مالیاتی خسارے میں کمی آئی ہے۔ سی پیک کا کام شروع ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سی پیک کے بعد والا پاکستان وہی پاکستان ہوگا جو تمہارے اور میرے خوابوں کی تعبیر ہے۔ وہ پریشان حال شیزو فرینک بوڑھا بولا ’’یہ سب باتیں میں جانتا ہوں مگر لگتا ہے کہ تم نے آج ٹی وی نہیں دیکھا۔ وزیروں کی زبانیں اچانک آگ اگلنے لگی ہیں‘‘۔ میں ہنس پڑا۔ میں اُس کی بات سمجھ گیا تھا۔ قصہ دراصل اتنا ہے کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے سپریم کورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’کسی کو بھی یہ اختیار نہیں ہے وہ میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دے سکے۔ میاں نواز شریف کو غیر عوامی،غیر سیاسی،غیر جمہوری طریقے سے اگر عوامی مینڈیٹ سے علیحدہ کرنے کی کوئی بھی کوشش کی گئی اور کسی طرف سے بھی ہوئی، کوئی بھی اُس کا حصہ بنا تو اسے عوام کے بے پناہ اور شدید ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فیصلہ عوام کی امنگوں کے مطابق آنا چاہئے ورنہ...‘‘۔ ریلوے کے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے بھی اسی طرح کی گفتگو کی ہے بلکہ ان کا لہجہ تو رانا ثناءاللہ سے بھی تیز تھا۔ انہوں نے کہا ’’جبر کے فیصلے، جھوٹ بول کر دبائو کے فیصلے ہم نہیں مانتے۔ ووٹ نواز شریف لے اور فیصلے کوئی کرے، یہ نہیں ہو سکتا۔ عوام کی طاقت سے آئے ہیں اور عوام کی طاقت سے جائیں گے۔ مسلم لیگ کے کارکنو تیار رہو۔ پہرہ دیتے رہو۔ جاگتے رہو۔ جاگ رہے ہو نا‘‘۔ کچھ تجزیہ کار ان تند و تیز جملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ایسا لگتا ہے جیسے نون لیگ کی قیادت کو سرکاری لاء ہیکرز نے بتا دیا ہے کہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آرہا ہے۔ ان وزرا کے بیانات پر نون لیگ کی طرف سے وضاحت بھی کی گئی ہے کہ ایسی بات نہیں یہ ورکرز کنونشن وغیرہ دراصل نون لیگ کی انتخابی مہم کا آغاز ہیں۔ یہ نون لیگ کی سیاسی سرگرمیوں کی انتخابی تقریریں ہیں اُس شیزو فرینک بوڑھے کی پریشانی صر ف اتنی تھی کہ ان بیانات کی روشنی میں خدا نخواستہ اگر اداروں میں کوئی کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو کیا ہوگا۔ بہر حال میں نے اسے سمجھایا کہ کچھ نہیں ہوگا۔ اس صورت حال میں ہمارے مقتدر ادارے فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ موجودہ سربراہ کے بارے میں اطلاعات تو یہی ہیں کہ وہ بہت صاف شفاف آدمی ہیں۔ سیاسی معاملات میں کسی طرح کی مداخلت بھی پسند نہیں کرتے۔
ان کے خیال کے مطابق ہر ادارے کو صرف وہی کام کرنا چاہئے جس کیلئے اسے بنایا گیا ہے جو آئینِ پاکستان اسے تفویض کرتا ہے۔ سو اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اُن کا جھکائو کسی طرف ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ ان کا ہر عمل پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق ہو گا گزشتہ روز انہوں نے اپنے افسران کو یقین دلاتے ہوئے پھر اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہےکہ ’’پاناما کا مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے اور اس کا فیصلہ قانون اور آئین کے مطابق ہوگا۔ ڈان لیکس پرکام جاری ہے اور جن لوگوں نے وہ جرم کیا ہے انہیں ضرور سزا ملے گی‘‘۔
بس اپنی تو اتنی دعا ہے کہ تاریخِ پاکستان کی کتاب کے کسی صفحے پرپھر کسی نئے ’’این آر او‘‘ کی ڈرائونی تصویر نہ بنا دی جائے۔ پھر کسی کی جلاوطنی کا کوئی واقعہ نہ ہو۔ پھر کسی نئی پلی بارگیننگ کی سیاہی قوم کے چہرے پر نہ تھوپ دی جائے۔ انصاف کے ترازو میں غریب اور امیر کا وزن ہمیشہ برابر رہے۔ کہیں کوئی خود کشی نہ ہو۔ نا اجتماعی نا انفرادی۔


.
تازہ ترین