میں میاں رضا ربانی کے افسانے پڑھ رہا تھا اور یاد کر رہا تھا ان ترقی پسند افسانہ نگاروں کو جنہوں نے سماج کے حاشیے پر بھٹکنے والے لوگوں کی کہانیاں لکھیں۔ اور ان طبقوں اور ان خاک نشینوں کو اس غیر منصفانہ معاشرے کے سامنے پیش کیا جو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق کسی کو نظر نہیں آتے۔ میں یاد کر رہا تھا ان ترقی پسند لکھنے والوں کو، اور ان پر رحم کھا رہا تھا کہ 1930کی دہائی سے 1960کی دہائی تک آتے آتے ہمارے نئے لکھنے والے ان پر یک سطحی اور اکہرے افسانے لکھنے کا الزام لگا رہے تھے۔ یہ نئے لکھنے والے اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کی کوششوں میں لگ گئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سماج کے حاشیے پر بسنے والی یہ مخلوق اپنے ترجمانوں سے محروم ہو گئی تھی۔ ایسے میں ان خاک نشینوں کو میاں رضا ربانی جیسا کہانی لکھنے والا مل گیا۔ میاں رضا ربانی کے انگریزی افسانوں کے مجموعے Invisible peopleمیں سماج کے دھتکارے ہوئے انہی لوگوں کی کہانیاں شامل ہیں بلکہ کہنا تو یہ چاہئے کہ ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ جسے ہم نے اپنی آنکھوں سے اوجھل کئے رکھا ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ جس طبقے کی جانب دیکھنا بھی ہم گوارا نہیں کرتے، ان کہانیوں نے اسے ہماری آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
یہ روز مرہ کی کہانیاں ہیں۔ ہمارے آس پاس کی کہانیاں۔ وہ کہانیاں جو ہمارے اخباروں میں قریب قریب روز ہی چھپتی رہتی ہیں۔ لیکن ہم انہیں پڑھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اس سماج نے، ہمیں کٹھور دل بنا دیا ہے۔ اب چاہے ہم تسلیم کریں نہ کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس طبقے کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کو ہم اپنا مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔ ہم آنکھیں بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ کہیں دور کسی اور ہی دنیا میں ہو رہا ہے۔ میاں رضا ربانی نے اپنے افسانوں میں اس دوری کو ہمارے قریب کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ وہ معاشرہ جس کی بنیاد ہی ناانصافیوں پر ہو جب ظلم کرنے پر آتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ مظلوم کا تعلق کس طبقے سے ہے، وہ اپنے مقصد کے لئے سب کو کچلتا چلا جاتا ہے اور اس مقام پر آکر وہ طبقہ بھی جو بظاہر اتنا غیر مرئی بھی نہیں ہے غیر مرئی ہو جاتا ہے۔ دور کیوں جایئے، یہ چند دن پہلے کی بات ہی تو ہے، پانچ نوجوانوں کو غائب کر دیا گیا۔ کس نے غائب کیا؟ کچھ پتہ نہیں۔ کیوں غائب کیا؟ یہ بھی معلوم نہیں۔ ملک بھر میں شور مچا تو چند دن بعد یہ نوجوان گھروں کو واپس آگئے۔ کیسے آئے؟ کچھ پتہ نہیں۔ اب یہ نوجوان بھی چپ ہیں۔ ان کی زبان کو قفل لگ گیا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ قفل لگا دیا گیا ہے۔ اب یہاں آکر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جو نوجوان غائب کئے گئے وہی غیر مرئی نہیں ہوئے تھے بلکہ جنہوں نے انہیں غائب کیا وہ ان سے بھی زیادہ غیر مرئی ہیں۔
میاں رضا ربانی نے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوی مجموعے کا نام برطانیہ کے اس ٹیلی وژن سیریل کے نام سے متاثر ہو کر رکھا ہے جو1950 کی دہائی میں دکھایا جاتا تھا۔ اس کا نام Invisible Man تھا لیکن میں عرض کروں کہ اصل میں Invisible Man امریکی سیاہ فام ناول نگار رالف ایلی سن کا ناول ہے۔ یہ ناول 1952میں چھپا تھا۔ اس کے بعد ہی یہ نام مقبول ہوا۔ یہ ناول امریکہ میں رہنے والے سیاہ فام لوگوں کے بارے میں ہے۔ وہ لوگ جو اس معاشرے کا حصہ ہیں وہ سب کے سامنے ہیں لیکن کسی کو نظر نہیں آتے۔ میاں رضا ربانی کے افسانے بھی ہمارے معاشرے کے انہی لوگوں کے بارے میں ہیں۔ یہ افسانے ہمیں یہ بھی احساس دلاتے ہیں کہ ان غیر مرئی لوگوں کو ہم معاشرے کی آنکھوں کے سامنے کب لائیں گے۔
معاشرے کی آنکھوں کے سامنے لانے پر مجھے پھر رالف ایلی سن کا ناول یاد آ گیا۔ اس ناول کا مرکزی کردار کہتا ہے
’’مجھے آزادی اس وقت ملے گی جب میں یہ جان لوں گا کہ میں کون ہوں‘‘
اور امریکہ کے سیاہ فام باشندوں نے آخرکار یہ جان لیا کہ وہ کون ہیں۔ اب وہاں وہ نیگرو، نگر یا کالے نہیں کہلاتے بلکہ انہیں ایفریقن امیریکن کہا جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ابھی وہ نسلی امتیاز سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنے آپ کو پہچان تو لیا ہے اب آپ اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ یہ جو ہمارے غیر مرئی لوگ ہیں کیا یہ بھی کبھی اپنے آپ کو پہچان پائیں گے؟ یہ بہت ہی چبھتا ہوا سوال ہے۔ جس کا جواب کم سے کم میرے پاس تو نہیں ہے۔ ہاں، ایک زمانہ ہمارے ہاں بھی ایسا آیا تھا جب ان غیر مرئی لوگوں کو مرئی ہونے اور اپنی پہچان پانے کا موقع ملا تھا۔ یہ موقع دیا تھا ذوالفقار علی بھٹو نے۔ لیکن وہ موقع بھٹو صاحب نے خود ہی ضائع کر دیا تھا۔
معاف کیجئے۔ میں سیاست کے میدان میں چلا گیا۔ لیکن جن افسانوں پر ہم بات کر رہے ہیں وہ افسانے بھی تو ایک معزز اور معتبر سیاست دان نے ہی لکھے ہیں۔ ہم تو کب سے رو رہے ہیں کہ ہمارے سیاست دانوں کو ادب پڑھنا چاہئے۔ ادب ہماری آنکھیں کھولتا ہے۔ ہمیں وہ چیزیں دکھاتا ہے جو بظاہر آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہیں۔ وہ ہمارے دلوں میں گداز پیدا کرتا ہے اور دوسرے انسانوں کے ساتھ یگانگت اور موانست پیدا کرتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں نے کتابیں تو بہت لکھی ہیں لیکن وہ زیادہ تر جھوٹی سچی آپ بیتیاں ہیں۔ یا پھر سیاسی مسائل کا تجزیہ۔ فکشن کسی نے نہیں لکھی۔ فکشن کی طرف توجہ دی ہے تو ایسے سیاست دان نے جو پہلے ہی گداز دل رکھتا ہے، جو ’’نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو‘‘ ہے۔ میاں رضا ربانی نے کہانیاں لکھی ہیں۔ اگرچہ انگریزی میں لکھی ہیں، مگر لکھی تو ہیں۔
.