• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاپان کے ہائی وے پر چلتی ہوئی گاڑی کو لگائے جانے والے اچانک بریک کے سبب جہاں گاڑی پلٹتے پلٹتے بچی وہیں اس سے پیدا ہونی والی خطرناک آواز سے تمام لوگ اس گاڑی کی جانب متوجہ بھی ہوگئے اتفاق کی بات یہ تھی کہ یہ گاڑی بھی ہمارے ایک پاکستانی دوست کی تھی جو خود گاڑی کی پسنجر سیٹ پر سوا ر تھے جبکہ گاڑی چلانے والا ان کا جاپانی ڈرائیور محمد عاقب تھا،جو حال ہی میں نیا نیا مسلمان ہوا تھا اور اس کے مسلمان ہونے پر سب سے زیادہ خوشی ملک صاحب کو ہی ہوئی تھی جن کی مسلسل تربیت اور جدو جہد کے سبب عاقب دین اسلام کی جانب مائل ہوا اور ایک اچھا مسلمان بننے کے عہد کے ساتھ ہی دین اسلام میں داخل ہوا، ملک صاحب اکثر مجھے بھی نو مسلم جاپانی عاقب کے بارے میں بتایا کرتے تھے وجہ یہ تھی کہ عاقب ایک انتہائی نیک اور ملنسار جاپانی تھا اس کے والدین دونوں ہی سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم تھے اس کے والدین نے شروع میں عاقب کے مسلمان ہونے پر کچھ احتجاج کیا،بعدمیں وہ بھی اپنے بیٹے کی رضا میں راضی ہوگئے، لیکن اس روز ہائی وے پر لگائے جانے والے اچانک بریک نے ملک صاحب کو بھی چونکا دیا کیونکہ یہ بریک دونوں کی زندگی کے لئے خطرے کا سبب بن سکتی تھی جبکہ پولیس بھی اس لاپروائی کے سبب ان کا سخت چالان کرسکتی تھی لیکن انھوں نے عاقب سے گاڑی کو اچانک روکنے کی وجہ دریافت کی،تو عاقب کی جانب سے کی جانیوالی درخواست نے ملک صاحب کو ہلا کررکھ دیا،عاقب نے معصومانہ لہجے میں کہا کہ آپ نے جوپانی کی بوتل چلتی ہوئی گاڑی سے نیچے پھینکی ہے وہ بہت غلط کام کیا ہے لہٰذا آپ جائیںوہ خالی بوتل اٹھا کر لائیں اور اسے کسی کچرے کی تھیلی میں ڈالیں، کیونکہ دین اسلام کا میں نے جتنا مطالعہ کیا ہے کہ اس کے مطابق اسلام میں صفائی نصف ایمان ہے اور جس میں صفائی کی صفت موجود نہیں ہے اس میں آدھا ایمان ہی نہیں ہے لہٰذا میں نہیں چاہتا کہ جس کی وجہ سے میں مسلمان ہوا ہوں وہ خود آدھے ایمان سے محروم رہے،ملک صاحب کو عاقب کی نصیحت سے اپنی غلطی کا فوری احساس تو ہوگیا لیکن وہ عاقب کے ایمان کی پختگی کو مزید جانچنا چاہ رہے تھے لہٰذا انھوں نے کہا کہ اگر میں بوتل اٹھا کر نہ لائوں تو کیا کروگے، عاقب نے جواب دیا کہ میں خود اٹھا کر لائوں گا کیونکہ جاپان کی یہ سڑک حکومت نے لوگوں کی سہولت کے لئے بنائی ہے کچرا پھینکنے کے لئے نہیں، ملک صاحب نے مزید کریدنے کے لئے سوال کیا کہ بطور باس میں اگر تمہیں اس بات کی اجازت نہ دوں کہ تم وہ بوتل اٹھا کر لائو تو کیا کروگے، اب عاقب کے چہرے کے تاثرات بدل گئے اور اس کی آنکھیں نم ہوگئیں، اس نے گاڑی بند کردی اور سرجھکا کر سنجیدگی سے بولا تو یہ میرا آپ کے پاس ملازمت کا آخری دن ہوگا کیونکہ شاید میرا رزق آپ کے پاس اتنا ہی لکھا تھا اور میں آپ کی ملازمت کو خیر بادکہتا ہوں، ملک صاحب اس نو مسلم جاپانی کے ایمان کی طاقت سے متاثر ہوچکے تھے انھوں نے عاقب کو گلے لگا لیا اور اس سے اپنی غلطی کی معذرت کی اور اتر کر خالی بوتل واپس لیکر آئے اور آگے جاکر اسے کسی کچرے کی جگہ ڈالا، عاقب کی دنیا بدل چکی تھی کچھ عرصے بعد اس نے داڑھی رکھ لی اور مذہبی تعلیم کے حصول کے لئے مصرچلا گیا اور ملک صاحب آج تک اس نومسلم کے ایمان کی طاقت کو یاد کرتے ہیں،صفائی نصف ایمان ہے یہ بات ہمیں اسلامی تعلیمات میں تو ہر جگہ نظر آتی ہے لیکن جاپان میں اور جاپانی عوام کے کردار میں صفائی کی سب سے زیادہ اہمیت ہے،جاپان میں بچے سے لیکر بوڑھے جاپانی شہری تک میںہر روز رات کو سونے سے قبل غسل کرنے کی عادت عام سی بات ہے،وہاں بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن، ریستوران، فائیو اسٹار ہوٹلوں سے لیکر پبلک ٹوائلٹ تک نہایت صاف ہوتے ہیں۔ اسکے برعکس دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ٹوائلٹس کی جو حالت زار ہوتی ہے وہ بس الامان الحفیظ کے مترادف ہی ہوتی ہے،چند برس قبل جیو کے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران دیکھا کہ صبح ہی صبح ایک بینک کا اسٹاف سڑک کی صفائی میں مصروف تھا، بینک ملازمین نے بتایا کہ اس صفائی میں بینک منیجر سے لیکر کلرک تک شامل ہیں اور یہ ہمارا روز کا معمول ہے کہ صبح بینک کھلنے سے قبل بینک کے سامنے موجود درخت کے پتوں سے لیکر اگر کوئی کچرا نظرآئے تو اس کی صفائی کی جائے۔جاپانیوں کا خیال ہے کہ صفائی برکت لیکر آتی ہے اس لئے یہاں صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ جاپانی شہری چاہے وہ مسلمان ہو یا نہیں ان کے اندر بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جو دین اسلام کی تعلیمات کا بھی حصہ ہیں لیکن بدقسمتی سے دین اسلام کے ماننے والوں میں وہ خصوصیات بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں، پاکستان کا سفر کرنے والے اکثر بچے جب واپس جاپان آتے ہیں تو ان کے کپڑوں سے چاکلیٹ اور ٹافیوں کے ریپرز نکلتے ہیں وجہ معلوم کریں تو بتاتے ہیںکہ انھیں کچرا پھینکنے کی کوئی جگہ نہیں ملی اسلئے یہ ریپرز انھوں نے اپنی جیبوں میں ہی رکھ لئے تھے۔ جاپانی قوم کے کردار کے حوالے سے یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ جب یہ دین اسلام کو پڑھ کر اس پر ایمان لاتے ہیں تو پورے یقین کے ساتھ لاتے ہیں۔ایک پاکستانی دوست کی اہلیہ جاپانی ہیں انھوں نے اپنی اہلیہ کو زکوٰۃدینے کی اہمیت بیان کی تو ان کی اہلیہ نے سوا ل کیا کہ اس سے انھیں کیا فائدہ ہوگا تو پاکستانی دوست نے کہا کہ اگر تم دل سے زکوٰۃ دوگی تو اگلے سال تمہارے مال میں بھی دگنا اضافہ ہوگا اس پر جاپانی خاتون نے خوشی سے زکوٰۃ دے دی اور واقعی اگلے سال ان کو مختلف ذرائع سے بہت زیادہ آمدنی ہوئی اور انھوں نے اگلے سال پہلے سے زیادہ شوق کے ساتھ زکوٰۃ ادا کی، ایک جاپانی خاتون کو رات کو سونے سے قبل کلمہ طیبہ پڑھنےکی فضیلت بیان کی گئی کہ رات کو سونے سے قبل کلمہ پڑھنے سے انسان بیماریوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہتا ہے، خاتون نے یہ عادت اپنا لی پھر ایک روز انھیں کافی تیز بخار ہوا تو پاکستانی دوست انہیں ڈاکٹر کے پاس لیجانے لگے تو نومسلم جاپانی خاتون نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ بخار کیوں ہوا ہے میںرات کلمہ پڑھے بغیر سوگئی تھی تاہم آئندہ ایسا نہیں ہوگا، اور اگلے روز ان کا بخار اتر چکا تھا، یہ انسان کے یقین اور ایمان کی مضبوطی کا عالم ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب پاکستانیوں کو نصف ایمان یعنی صفائی کی دولت عطا فرماتاکہ پاکستان اپنی صفائی ستھرائی کے نتیجے میں ایک اسلامی ملک کہلا سکے۔



.
تازہ ترین